اور جال میں پھنس گئے

اعظم طارق کوہستانی

سات سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ دور کہیں گہرے سمندر میں ایک سمندری گھوڑا رہتا تھا۔
یوں تو وہ اپنے محلے کی مچھلیوں اور دیگر جانداروں میں سب سے ذہین سمجھا جاتا تھا، لیکن اس میں بس ایک خرابی تھی کہ وہ ذراڈرپوک تھا!
ویسے سچ کہوں تو یہ صرف اس کے دوستوں کا خیال تھا۔ دراصل اسے کبھی اپنی بہادری دکھانے کا موقع ہی نہیں مل تھا۔ شاید اس کے شرمیلے پن کی وجہ سے لوگ ایسا سوچتے تھے کہ وہ بہادر نہیں ہے۔
جس جگہ سمندری گھوڑا اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا وہ جگہ بہت زیادہ گہری تھی۔ اتنی گہری کہ اگر دس زرافوں کو ایک دوسرے کے اُوپر کھڑا کردیا جائے تو وہ سب بھی اس میں ڈوب جائیں۔ سمندر تو خیر اس سے بھی زیادہ گہرا تھا۔
سمندری گھوڑے نے اسکول میں بہت ساری باتیں سیکھی تھیں۔خاص طور پر اسے انسانوں کے بارے میں جاننے کا بہت شوق تھا۔ ایک بار استاد نے بتایا کہ انسان زمین کی خشک جگہ پر رہتے ہیں۔ اُستاد نے یہ بھی بتایا کہ زمین پر تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی ہے! وہ اکثر سوچتا رہتا کہ وہ خشکی کا ٹکڑا تو بہت ہی چھوٹا ہوگا، انسان تو بہت تنگ جگہوں پر رہتے ہوں گے۔ پھر اسے یہ بات بھی بہت عجیب لگتی کہ انسان بھلا پانی کے بغیر کیسے زندہ رہتا ہے؟ اگر ہم پانی سے نکل جائیں تو مرجائیں مگر انسان تو پانی میں رہتا ہی نہیں…!
پھر ایک دن انھیں ’’مطالعۂ سمندر‘‘ کے پیریڈ میں استاد نے بتایا:
’’سمندری کچھووں کی عمر سو سال سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘
یہ بات جان کر سمندری گھوڑے کے د ل میں کچھووں سے ملنے کا شوق بھی پیدا ہوگیا۔ وہ سوچتا کہ کچھوے سے کہیں ملاقات ہوجائے تو وہ اس سے بہت سارے سوالات کرے گا۔ وہ عمر میںاتنا بڑا ہوتا ہے تو اس نے سمندر کے چپے چپے کی سیر کی ہوگی۔ اس نے یقینا انسانوں کو بھی دیکھا ہوگا ۔ کاش کوئی بوڑھا سمندری کچھوا کبھی اِس طرف آنکلے تو مزہ آجائے۔
ایک اتوار کی صبح سمندری گھوڑے کو اُس کی امی نے قریبی محلے کی دُکان سے وہیل مچھلی کے دودھ کی دہی لینے بھیجا۔ اُنھیں رات کے کھانے میں قورمہ بنانا تھا۔
اب آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ رات کا کھانے بنانے کے لیے سمندری گھوڑے کی امی نے سودا لینے اسے صبح سویرے ہی بھیج دیا!!!
تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ سمندری گھوڑا سمندر کا سب سے سست جانور ہوتا ہے۔ آپ بچوں سے بھی زیادہ سست، اتنا کہ وہ بہت تیز بھی چلے تب بھی ایک گھنٹے میں تین چار فٹ ہی حرکت کر پاتا ہے۔ اِس لیے اُس کے لیے دہی لانے کا یہ کام چند منٹوں کا نہیں،پورے دن کا کام تھا۔ خیر اس دن جب وہ ابھی اپنے محلے سے بھی باہر نہ نکل پایا تھا کہ اچانک اُس کے راستے میں مچھلیوں کا ایک بہت بڑا غول آگیا۔
مچھلیوں کا یہ غول ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر تا رہتا ہے۔ اب ہوا یہ کہ سمندری گھوڑا رک کر انھیں یک ٹک دیکھنے لگا اور یہی اس کی غلطی تھی۔
کیونکہ اسی وقت اچانک ایک بڑی سی چادر اوپر سے آئی اور غول کی سیکڑوں مچھلیوں کو خود میں سمیٹ کر واپس اوپر کی جانا شروع ہوگئی…!
یہ چادر دراصل ایک بہت بڑا لوہے کا جال تھا جو مچھلیوں کے شکار کے لیے سمندر میں ڈالا گیا تھا۔
ویسے تو عام طور پر سمندری گھوڑے جال میں نہیں پھنستے، کیوں کہ اُن کی جسامت بہت چھوٹی ہوتی ہے، ایک انچ سے کچھ انچوں تک۔ اور ہمارا یہ سمندری گھوڑا تو ویسے بھی ابھی بچہ تھا، صرف ایک انچ کا، وہ جال میں پھنسنے کی بجائے آرام سے اُس سے نکل آتا، لیکن ہوا یوں کہ سیکڑوں مچھلیوں کے ہجوم میں پھنس کر وہ اُن کے ساتھ اوپر جاتا چلا گیا۔

٭…٭

جال آہستہ آہستہ اوپر اٹھ رہا تھا۔ جال میں کہرام مچا ہوا تھا۔ سب چیخ رہے تھے۔ سمندری گھوڑے کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔ اُس نے اسکول میں پڑھا تھا کہ انسان مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔
’’کہیں وہ بھی تو اُن کا شکار نہیں بن گیا؟‘‘اس کا دماغ بہت کچھ سوچ رہا تھا۔
’’مچھلیاں تو انسان کی خوراک ہے، انسان انھیں کھا جائیں گے لیکن مجھے تو قید کر دیا جائے گا…اُف…اللہ میاں! میں آزاد زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘وہ گڑگڑایا۔
اِس بے بسی اور لاچارگی کے عالم میں سمندری گھوڑے کو اپنے استاد کا پڑھایا ایک محاورہ یاد آگیا کہ ’’گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے!‘‘
اسی وقت اسے استاد کی ایک اور بات یاد آئی۔ انھوں نے کہا تھا کہ مشکل وقت میں کبھی بھی ہمت نہیں ہارنا چاہیے، بلکہ جتنی بھی قوت ہو، اسے استعمال کرکے مشکل سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بس جی یہ سوچنا تھا کہ سمندری گھوڑے کے ننھے سے ذہن میں ایک بڑی کام کی تدبیرآگئی کہ اگر ہم سب چیخنے چلانے کے بجائے نیچے کی جانب زور لگائیں تو اپنی جان بچاسکتے ہیں۔ اس نے چلا کر مچھلیوں سے ایک ساتھ مل کر نیچے کی طرف تیر نے کو کہا۔عین اُسی وقت اس کی نگاہ اپنے دائیں طرف پڑی اور مارے حیرت کے وہ گنگ رہ گیا۔کیوں کہ جس چیز کو وہ دیکھ رہا تھا، اسے دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں بہت عرصے سے موجود تھی۔
’’ارے یہ توکچھوا ہے…!‘‘ اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’شاید یہ بے چارہ بھی میری طرح مچھلیوں کے ساتھ جال میں پھنس گیا ہے۔‘‘
اِدھر سمندری گھوڑا کچھوے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا، اُدھر کچھوے نے اس کی بات سن لی تھی، وہ جلدی جلدی مچھلیوں سے کہنے لگا:
’’یہ بچہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ میرے تجربے سے تم سبھی واقف ہو ۔اگر اپنی جان بچانا چاہتی ہو تو سب مل کر نیچے کی جانب زور لگا کر تیرنا شروع کردو۔‘‘
سمندری کچھوے کی بات سن کر سبھی مچھلیوں نے زور لگا کر نیچے کی جانب تیرنا شروع کر دیا۔ وہ سب مل کر پوری قوت سے نیچے کی طرف تیرتے چلے گئے، اور پھر ایک کرشمہ ہوگیا، جال ایک جھٹکے سے ٹوٹ گیا…!
پھر کیا تھا، تمام مچھلیاں خوشی سے چِلّا اٹھیں۔ انھوں نے سمندری گھوڑے اور کچھوے کو کندھوں پر اٹھا کر اُن کا شکریہ ادا کیا۔
جب مچھلیاں چلی گئیں تو سمندری گھوڑے نے کچھوے میاں کو اپنے گھر چلنے کی دعوت دی، جسے کچھوے نے خوشی سے قبول کرلیا اور اب وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے سمندری گھوڑے کے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے۔
سمندری گھوڑا، کچھوے سے بہت سارے سوالات ایک ساتھ کرنے کی کوشش کررہا تھا، اس کا جوش دیکھ کر کچھوا مسکرا اٹھا اور بولا:
’’میں تمھارے سب سوالوں کا جواب دوں گا لیکن اِس وقت تو مجھے سخت بھوک لگ رہی ہے۔ ویسے تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انسان جیسے کھانے کوئی نہیں بنا سکتا۔ میں نے انسانوں کی بنائی ہوئی چاکلیٹ بھی کھائی ہے، جو اتنی لذیز ہوتی ہے کہ بس تمھیں کیا بتاؤں۔‘‘
سمندری گھوڑا حیرت سے کچھوے میاں کی باتیں سن رہا تھا۔وہ باتوں میں اتنا مگن ہوگیا تھا کہ اسے دہی لانا بھی یاد نہ رہا تھا۔
تو بھئی اب آپ بتائیے کہ اب سمندری گھوڑے کو اپنی امی جان سے کیسی زبردست ڈانٹ پڑنے والی ہے۔ ایک طرف تو وہ ایک مہمان کو گھر لے جارہا تھا، دوسری طرف وہ کھانا بنانے کے لیے دہی بھی نہیں لایا تھا…!!!
کہیں آپ بھی توایسا نہیں کرتے…؟

٭…٭

مرکزی خیال ماخوذ