رومی، سومی اور ٹومی

اعظم طارق کوہستانی

سات سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے کہانی

رومی، سومی اور ٹومی دریا کے کنارے رہتے تھے۔
یہ تینوں دوست چوہے تھے۔ ان تینوں نے اپنے نام خود رکھے تھے۔ ہوا یوں کہ ایک دن رومی نے انسانوں کی ایک کتاب میں پڑھا کہ روم نام کا ایک ملک اس دنیا میں پایا جاتا تھا۔ اس ملک کا نام رومی کو اس قدر پسند آیا کہ اس نے اپنا نام رومی رکھ لیا۔ روم کے آخر میں چھوٹی ’ی‘ اس لیے لگائی کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اس نے کسی کی نقل کی ہے۔ جب اس کے دوستوں نے پوچھا کہ یہ نام تم نے کیسے سوچا تو وہ مونچھوں کو تاؤ دے کر بولا :
’’یہ اپنے دماغ کا آئیڈیا ہے۔ سمجھے! اس کو بولتے ہیں آئیڈیا اور یہ آئیڈیے صرف انسان سوچ سکتے ہیںیا پھر مجھ جیسے ذہین چوہے۔‘‘
اس کے دوستوں نے اس کی منت کی کہ وہ ان کے نام بھی رکھے۔
رومی چوہا پھنس گیا تھا لیکن دوسرے لمحے اس کے دماغ میں سچ مچ آئیڈیا آگیا۔
اس نے کہا: ’’تم سومی اور وہ ٹومی۔‘‘
دونوں دوستوں نے خوشی خوشی ان نئے ناموں کو اپنے لیے پسند کر لیا، حالاںکہ اگر ٹومی کو پتا چل جاتا کہ انسان اپنے کتوں کے نام اکثر ٹومی رکھتا ہے تو وہ کبھی ٹومی کہلانا پسند نہ کرتا۔ اچھا ہی ہوا کہ اسے یہ بات معلوم نہ تھی۔
ایک دن تینوں دوست اپنے چھوٹے سے گھر میں خوب مزے سے سو رہے تھے۔ اس رات دریا میں سخت ہلچل مچی ہوئی تھی۔
انسانوں نے دھواں اور آلودگی اتنی زیادہ پیدا کر دی کہ گرمی پوری دنیا میں بڑھتی جارہی ہے۔ تپتا ہوا سورج جہاں انسانوں کو بہت زیادہ گرمی پہنچا رہا ہے وہیں یہ گرمی پہاڑوں پر موجود برف کو بھی تیزی کے ساتھ پگھلانے میں مصروف ہے۔ سورج کی گرمی سے برف تیزی سے پگھلی۔ دریا میں پانی بہت بڑھ گیا۔ رومی، سومی اور ٹومی اتنی گہری نیند سو رہے تھے کہ انھیں پتا ہی نہ چلا۔ پانی ان کے نیچے سے گزرنے لگا۔ آہستہ آہستہ پانی اُوپر ہونے لگا۔ اچانک پانی کا ایک بڑا ریلا آیا اور دروازہ توڑتا ہوا ان تینوں کے بستر بہا کر لے گیا۔ ان تینوں کی اچانک آنکھ کھلی لیکن اب تینوں کے بستر دریا میں بہہ رہے تھے۔ رومی نے جب یہ خوفناک منظر دیکھا تو خوف سے اس کا چہرہ پیلا ہوگیا۔ سومی کے دانت کپکپا رہے تھے۔ ٹومی نے آنکھیں بند کر لیں لیکن کوئی فائدہ نہیںہوا وہ تینوں پانی میں تیرتے جارہے تھے۔
رومی کو لگا کہ وہ زیادہ دیر تک ٹکے نہیں رہ سکتے اور کسی بھی لمحے گر سکتے ہیں اور اگر نہ بھی گرے تو خوف سے ان کا دَم تونکل ہی جائے گا۔ اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا۔ اس نے چلا کر سومی اور ٹومی سے کہا کہ وہ بستر کے دونوں کناروں سے بستر کی چادر باندھ لیں اور دوسرے دونوں سرے پکڑ لیں تاکہ بادبان بن جائے۔
’’لیکن ہم ایسا کیوں کریں۔‘‘ سومی نے خوف سے چلا کر کہا۔
’’کیوں کہ اس طرح ہم زندہ بچ سکتے ہیں بے وقوف۔‘‘
رومی کی جگہ ٹومی نے کہا۔ بات اس کی سمجھ آچکی تھی۔
’’اور اس کے علاوہ اس سے اچھا موقع ہمیں دوبارہ نہیں ملے گا۔‘‘
رومی نے چادر باندھتے ہوئے چیخ کر کہا۔
ان تینوں نے بادبان بنا لیے۔ اب وہ خوب چیخ چلا کر مزے لے رہے تھے۔
جب وہ چیخنا بند کردیتے تو تینوں کے منھ سے خوف کے مارے سیٹیاں بجنے لگتی تھیں۔
اچانک رومی کی نظر ایک بلی پر پڑی جو پانی کے ساتھ بہتی آرہی تھی۔ رومی نے چلا کر کہا۔
’’ہماری طرف ایک خوں خوار بلی آرہی ہے۔ بھائیو! ذرا بچ کر رہنا۔‘‘
’’یہ ہماری طرف بے وجہ نہیں آرہی بلکہ ہمیں کھانے آرہی ہے۔‘‘ ٹومی نے بھی چلا کر کہا۔
’’تم دونوں کیا کہہ رہے ہو، میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔‘‘ سومی نے روتے ہوئے کہا۔
’’ارے یہ تو پلاسٹک کی بلی ہے۔‘‘ ٹومی نے قریب آتی بلی کو دیکھ کر کہا۔
’’ ہاہاہا… سومی ڈر گیا… ہاہا… ڈرپوک سومی… ڈرپوک سومی۔‘‘
رومی نے سومی کا مذاق اڑایا، لیکن وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ خود کتنا ڈرا ہوا ہے۔ اپنے ڈر کو ختم کرنے کے لیے وہ اس طرح کی باتیں کررہا تھا۔

٭…٭

علی اور ایمن پانی میں تھیلی کو لکڑی سے باندھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ پانی کے اس جوہڑ میں اُنھیں مختلف چیزیں مل رہی تھیں۔ ان چیزوں کو جمع کرکے وہ بعد میں کھلونے بناتے تھے۔ اچانک انھیں کچھ کھلونے نظر آئے۔ علی نے چھپاک سے انھیں تھیلی میں اُٹھالیا۔
’’ارے یہ چھوٹے چھوٹے بستر ہیں۔‘‘ ایمن نے حیرت سے کہا۔
’’یہ تو بہت خوب صورت بھی ہیں۔ ہم اپنے گڈے کو اس پر سلائیں گے۔‘‘
علی نے کہا تو ایمن کا منھ بن گیا۔
علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’اور گڑیا کو بھی۔‘‘
’’ہاں یہ ہوئی ناں بات۔‘‘ ایمن مسکرائی۔ دونوں بہن بھائی اب گھر کی جانب چل پڑے۔
رومی، سومی اور ٹومی بستر کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔ تینوں نے جان بچ جانے پر اللہ کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے اپنے بستر علی اور ایمن کے پاس ہی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی منزل قریب میں ایک جنگل تھا۔ جہاں وہ دوبارہ محنت کرکے اپنے لیے بستر بناسکتے تھے اور بھلا ان کے لیے بستر بناناکیا مشکل تھا۔ آئیڈیاز کا بادشاہ ’رومی‘ جو اُن کے ساتھ تھا۔

٭…٭