جاسوس کی کھوپڑی

سید بلال پاشا

’’موٹل دجاس ۔۔۔ کمرہ نمبر 128۔‘‘
چیف قمر کے سیٹلائٹ فون پر پیغام ابھرا۔ اُس کا ہاتھ انٹر کام کی جانب بڑھ گیا۔
’’سالار! میں ٹھیک آٹھ منٹ میں اتر رہا ہوں۔ سفید شیور لیٹ تیار رکھو۔‘‘
’’جی سر بہتر۔‘‘ دوسری جانب سے سالار نے تابعداری سے کہا۔ کچھ ہی دیر بعد قمر اور سالار شاہراہِ حمید پر اڑے جا رہے تھے۔ خلافِ معمول آج گاڑی خود چیف قمر چلا رہا تھا۔
’’سر کہاں جانا ہے؟‘‘
سالار کی عادت تو نہیں تھی سوال کرنے کی۔ چیف قمرجتنا کہتا وہ کرتا جاتا۔ مگر آج چیف کے چہرے کے تأثرات کچھ عجیب تھے ، سو پوچھ بیٹھا۔
’’موٹل دجاس۔۔۔‘‘ چیف نے مختصر جوا ب دیا تو سالار نے سر ہلا دیا۔ وہ’دجاس‘ نامی کسی موٹل سے متعارف نہیں تھا ، مگر سمجھ چکا تھا کہ چیف ابھی بتانا نہیں چاہتے۔ وہ بھی خاموش ہوگیا۔
بیس منٹ بعد ایک بہت بڑے موٹل کے سامنے گاڑی رکی۔ اس کی پیشانی پر بڑا سا ’’موٹل ساجد‘‘ لکھا ہوا تھا۔ سالار کے چہرے پر ایک سیکنڈ کے لیے نہ سمجھنے کا تأثر ابھرا مگر اگلے ہی لمحے وہ مسکرا اٹھا۔ ’دجاس‘ کو الٹا کرو تو ’ساجد‘ بنتا تھا۔ چیف قمر نے سالار کی طرف دیکھا اور مطمئن ہو گئے۔ ابھی سالار کی صلاحیتوں کو زنگ نہیں لگا تھا۔
داخلی دروازے سے گزر کر وہ سیدھے منیجر کے دفتر میں گئے۔ گاڑی سے نکلتے وقت وہ چہروں کو ہلکا سا تبدیل کرنا نہیں بھولے تھے۔ چیف کے گال اب کچھ پھولے ہوئے لگ رہے تھے اور چہرے پر ایک بڑا سا تل بھی دکھائی دے رہا تھاجب کہ سالار کی آنکھوں کا رنگ بدل گیا تھااور ناک کے نتھنے تھورے پھیل گئے تھے۔ ذرا سی تبدیلی سے بھی دونوں پہچانے نہ جاتے تھے۔سالار کا چہرہ حد سے زیادہ معصوم لگ رہا تھا۔ منیجر کو سالار نے اپنا کارڈ دکھایا۔ چیف قمر نے آنے سے پہلے منیجر کو فون کروا دیا تھا۔ چیف کے سمجھانے پر منیجر نے آٹھویں منزل کی راہداری کا کیمرا بند کردیا۔ سالار اتنی دیر میں بیرے کا مخصوص لباس پہن چکا تھا اور کھانے کی ٹرالی دھکیلتا لفٹ کی طرف جا رہا تھا۔چیف قمر بھی اس کے پیچھے ہو لیے۔ لفٹ میں داخل ہوتے ہی چیف نے آٹھویں منزل کا بٹن دبایا۔
’’کمرہ نمبر 821۔‘‘ چیف نے سالار کو بتایا۔ گویا سیٹلائٹ پیغام میں کمرہ نمبر بھی بالکل الٹ بتایا گیا تھا۔
’’کون؟‘‘ سالار کے دروازہ بجانے پر کچھ توقف کے بعد اندر سے پوچھا گیا۔
’’روم سروس سر…لنچ آیا ہے۔‘‘
سالار کو اپنا وہ زمانہ یاد آگیا جب اس نے قمر کے کہنے پر ایک ماہ بیرے کا کام کیا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ سالار کے چہرے پر پیشہ ورانہ مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ دروازہ کھلا ، مگر کھولنے والا دروازے کی اوٹ میں تھا۔ سالار عام سے انداز میں داخل ہوتا چلا گیا۔ سامنے لگے آئینہ میں ا س نے دیکھا کہ کھولنے والا ایک اَدھیڑ عمر شخص ہے۔۔۔ اس کا ایک ہاتھ دروازہ کے ہینڈل پر جبکہ دوسرا جیب میں تھا۔۔۔ اور بلا شبہ اس کی انگلی ٹریگر پر تھی۔
’’ہیلو سر۔‘‘ سالار اس کے پاس سے گزرتا کمرے کے وسط میں پہنچا اور برتن میز پر لگانے لگا۔ کچھ لمحے سالار کی شخصیت کو جانچنے کے بعد وہ شخص مطمئن انداز میں میز کی جانب بڑھنے لگا۔ اب اس کے دونوں ہاتھ جیب میں تھے۔ جیسے ہی وہ میز کے قریب پہنچا۔ سالا رنے اس کی جانب چاولوں کی ٹرے بڑھا دی۔’’سر! ذرا یہ پکڑیے گامیں پلیٹیں ہٹا کر جگہ بنا دوں۔‘‘
اس نے اطمینان سے دونوں ہاتھ جیب سے نکالے اور ٹرے پکڑ لی۔ یہی موقع تھا۔۔۔ سالار کی ٹانگ بجلی کی رفتار سے پھرکی کی مانند گھومی ۔۔۔ اس شخص کی دونوں ٹانگیں ہوا میں اچھلیں اور سر نیچے فرش پر چھلے ہوئے ناریل کی طرح ٹکرایا۔ ہوا ہی میں اس شخص نے جیب میں ہاتھ ڈالنا چاہا تھا مگر سالار کی دوسری ٹانگ اس کی کلائی پر پڑی۔۔۔ نیچے گرتے ہی اس کے منھ سے کسی بھینسے کے ڈکرانے کی سی آواز نکلی تھی۔ سالار نے اس کے گرتے ہی ہتھیلی کا ایک ترچھا وار اس کی کنپٹی پر کیا اور اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔
آخری منظر اس نے دیکھا کہ ایک شخص داخلی دروازہ عبور کر رہا ہے۔۔۔ وہ چیف قمر تھا۔

٭…٭

انجیت کی آنکھ کھلی تو وہ ایک کرسی پربندھا ہوا تھا۔ باندھنے والوں نے قدرے رحم دلی کا مظاہرہ کیا تھا جس کی بدولت وہ اپنے ہاتھ ہلانے اور ایک دوسرے سے ملانے پر قادر تھا۔ سامنے دو افراد تو وہی تھے جن کو وہ ہوٹل کے کمرے میں دیکھ چکا تھا۔ اگرچہ اب قمر اور سالار کے چہرے اپنی اصلی حالت میں تھے مگر انجیت کی جاسوس آنکھیں جانچ چکی تھیں کہ یہ دونوں وہی ہیں۔ البتہ اُن میں ایک تیسرا آدمی انجیت کے لیے انجان تھا۔ یہ نیا آدمی سیکنڈ چیف سعد تھا۔ چیف قمر نے ایک عجیب طرز کا فون اٹھایا اور کافی دیر تک ہندسے ملانے کے بعد کان سے لگایا۔
’’آج رات تم سیکرٹ سروس آف ہندیا کے ہیڈ کوارٹر میں گھس کر فائل C-13 نکال سکتے ہو۔ ان کا مایہ ناز جاسوس انجیت ہمارے سامنے بے بس بیٹھا ہے۔ آج وہ شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہوں گے۔ اس سے اچھا موقع پھر شاید نہ آئے… اور ہاں! اب رابطہ کٹتے ہی اپنا فون ضائع کردینا اور کام پورا کر کے ہی رابطہ کرنا۔‘‘
چیف قمر نے اتنا کہہ کر رابطہ منقطع کیا اور مسکراتے ہوئے انجیت کی طرف دیکھنے لگا۔
’’کیسا لگ رہا ہے خود کو یوں بے بس پانا؟جب کہ ہم آج رات تمھاری خفیہ فائل اڑا لے جائیں گے؟‘‘ چیف قمر کے جملے میں طنز بھرا ہوا تھا۔
’’ہیلو! انجیت ہیئر۔۔۔ کسی بھی طرح آج رات ہیڈکوارٹر میں گھسنے والے ہر بندے کو پکڑ لو۔۔۔ اوور۔۔۔‘‘
انجیت نے اچانک اپنے ہاتھ پر بندھی ایک عام سے گھڑی کی سوئی کھینچی تھی اور لمحوں میں اپنا پیغام شاگل تک پہنچا دیاتھا۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ تینوں میں سے کوئی اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکا تھا۔
اب طنزیہ مسکراہٹ کی باری انجیت کی تھی۔ اچانک چیف قمر کوگویا دورہ پڑ گیاہو۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور انجیت کی کنپٹی پر ہتھیلی کا ترچھا وار کیا اور پھر کرتا ہی چلا گیا۔
چیف قمر نے اپنے ہاتھوں اپنا اہم جاسوس ہندیا کی سیکرٹ سروس کے ہاتھوں میں ڈال دیا تھا۔ اب اصول کے مطابق اس سے فوری رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا۔
انجیت پھر سے ہوش کھو بیٹھا تھا۔دوسری طرف سالار عجیب کشمکش میں تھا۔۔۔ اس کو صاف محسوس ہوا تھا کہ چیف قمر نے جان بوجھ کر اپنا جاسوس پھنسوایا ہے۔۔۔ انجیت کے ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑنا، اس کے ہاتھ سے گھڑی نہ اتارنااور اس کے سامنے اپنے خفیہ جاسوس سے بات کرنا۔۔۔
سالار کا دل چاہا اٹھے اور چیف قمر کا بھیجا اڑا دے۔

٭…٭

انجیت کی آنکھ کھلی تو اس کا سر درد کی شدت سے پھٹ رہا تھا۔سالار اور سیکنڈ چیف سعد سامنے کھڑے اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
’’ میں کتنے گھنٹے بعد ہوش میں آیا ہوں؟‘‘
انجیت نے اپنی گھڑی میں تاریخ دیکھنا چاہی مگر ہاتھ خالی تھا۔
’’تین دن بعد۔۔۔‘‘ سالار نے جواب دیا۔
’’اتنی طویل مدت کیوں؟‘‘ انجیت الجھ گیا۔
’’سر قمر کا ایک ہاتھ کھا کر لوگ قیامت تک کے لیے سو جاتے ہیں۔ تم خوش نصیب ہو کہ اتنے وار سہ کر صرف تین دن میں آنکھیں کھولنے کے قابل ہوگئے۔‘‘
سالار نے اس کی مضبوطی کا دل سے اعتراف کیا۔ انجیت کے ذہن میں آخری مناظر ابھرنے لگے کہ چیف قمر کے تابڑ توڑ وار پڑنے سے وہ ہوش کھو بیٹھا تھا۔ یہ یاد آتے ہی دوبارہ اس کے سر میں درد کی شدید لہر دوڑ گئی۔
’’البتہ رپورٹس کے مطابق تمھاری بینائی متاثر ہوئی ہے اور آنکھوں کی قوت مدافعت کمزور پڑ گئی ہے۔غور کرو ! تم اپنی پلکیں کیسے جلدی جلدی جھپک رہے ہو جیسے ان پر کوئی دباؤ ہو۔۔۔‘‘
انجیت نے غور کیا تو واقعی اس کی آنکھوں میں عجیب سا احساس ہو رہا تھا اور وہ عام انسانوں کی بہ نسبت بہت تیزی سے پلکیں جھپک رہا تھا۔
’’تم واقعی خوش قسمت ہو۔‘‘
سیکنڈ چیف سعد نے اس کا دھیان آنکھوں سے ہٹایا اور بولنا شروع کیا۔
’’ تمھارے بروقت پیغام کی وجہ سے ہمارا جاسوس پکڑا گیا۔ اگرچہ ہمارا ارادہ تمھیں ٹھکانے لگانے کا تھا مگر تمھاری یہ اچانک حرکت تمھارے لیے زندگی کی نوید بن گئی۔ اب یہ فیصلہ ہوا ہے کہ تمھیں واپس کر کے ہم اپنا جاسوس چھڑوائیں گے۔ شاگل کے نزدیک شاید تمھاری بہت اہمیت ہے، سو وہ بھی تیار ہوگیاہے۔آج رات ساڑھے بارہ بجے تمھیں سرحد پار کروادی جائے گی۔‘‘
سعد نے اس کو تفصیل سے سمجھایا۔ انجیت کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ دوڑنے لگی۔

٭…٭

رات کا پہر تھا۔ بارڈر پر خاردار تاروں کے دونوں طرف کچھ لوگ کھڑے تھے۔ اندھیرے میں ان کے چہرے واضح طور پر پہچانے نہیں جا رہے تھے۔ گھڑیاں بارہ بج کر انتیس منٹ دکھا رہی تھیں۔ جیسے ہی بارہ بج کر تیس منٹ ہوئے۔۔۔ کئی فٹ لمبے خاردار تار ’کھڑاک‘ کی آواز کے ساتھ زمین میں دھنس گئے۔ یہاں سے انجیت سامنے کی طرف چل پڑا ۔۔۔ وہاں سے ایک ہیولا اِن کی طرف آنے لگا۔بارڈر لائن پر دونوں کا پاؤں ایک ساتھ پڑا اور پھر دونوں اپنے اپنے ملک کی حدود میں داخل ہوتے چلے گئے۔
’’تمھارا کیا نام ہے؟‘‘
’’فجیل۔۔۔‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘
’’انسان ہوں ۔۔۔ بندر نہیں ۔‘‘
’’ماچس ہے؟‘‘ سالار نے اپنے جاسوس کی جانچ کے لیے آخری سوال کیا۔
’’ ہے تو۔۔۔ مگر تیلیوں کا مسالہ دونمبر ہے۔‘‘
بندہ اصلی تھا۔ اس نے سب جوابات ٹھیک دیے تھے۔ دونوںملکوں کے بندے اپنے جاسوسوں کو واپس اپنے ملک لے جانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

٭…٭

’’ایسی مشہور سیکرٹ سروس کا چیف اور اتنا نکما… احمق میرے سامنے اپنے خفیہ جاسوس سے باتیں کر رہا تھا۔‘‘
کچھ ہفتے بعد ایک اہم میٹنگ ختم ہونے پر انجیت اپنے باس شاگل کو چیف قمر کے بارے میں ایک بار پھر بتاتے ہوئے ہنس پڑا۔ ان کے ساتھ اس وقت رمیز بھی تھا۔ رمیز حال ہی میں جاسوسی کی جدید ٹیکنالوجی کا ایک کورس کر کے آیا تھا۔ انجیت رینک میں رمیز سے سینئر تھا۔ دو سال بعد آج رمیز اور انجیت کی ملاقات ہورہی تھی۔
’’یہ قمر تو عقل کا اندھا ہے ہی۔ بار ہا مجھے اس کا تجربہ ہوچکا ہے۔‘‘ شاگل نے بڑھک ماری۔
’’اچھا تم نے فائل C-13 دیکھی؟ ‘‘ شاگل نے انجیت سے پوچھا۔
’’ ہاں دیکھ لی۔ اس کے ساتھ دو تین اہم فائلوں کا مزید جائزہ لیا ہے۔ ہم جلد اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔۔۔ بشرطیکہ اس پروگرام کی کسی کو بھنک نہ پڑے۔‘‘ انجیت پر اعتماد لہجے میں بولا۔ ساتھ ہی اس نے اپنی پلکیں جلدی جلدی جھپکیں۔
’’یہ تمھاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے؟‘‘ رمیز نے عجیب لہجے میں پوچھا۔
’’ارے اسی احمق چیف قمر نے میرے سر پر ہتھیلی کا وار کیا تھا جس سے میری آنکھیں متأثر ہوئیں اور میں تین دن بعد ہوش میں آیا۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ انجیت اپنی بات مکمل کرتا ۔۔۔ رمیز نے فوراً ہی ریوالور نکالا اور تین گولیاں انجیت کے دل میں اتار دیں۔
انجیت خون میں لت پت چند لمحوں میں زندگی ہار گیا تھا۔مرتے وقت اس کی آنکھوں میں شدید حیرت اور بے یقینی نقش تھی۔
اس اچانک افتاد پر شاگل کا دماغ کام چھوڑ گیا تھا۔چند پل تو وہ منھ کھولے انجیت کو دیکھتا رہا پھر یکایک اس کے ہاتھ میں بھی پستول نظر آنے لگا اور ساتھ ہی اس کے منھ سے مغلظات کا طوفان نکلنے لگا۔
’’یہ… یہ کیا کر دیا تم نے؟…میں نے برسوں کی محنت سے اس کو تیار کیا تھا…اور تم نے ایک پل میں سب ختم کر دیا…پاگل ہو گئے ہو کیا تم؟‘‘
شاگل نے پستول اس کی طرف تان کر ہذیانی انداز میں پوچھا تھا… مگر رمیز شاگل کی طرف بالکل بھی متوجہ نہیں تھا۔ وہ انجیت کی لاش کے پاس آ بیٹھا اور کوٹ سے چاقو نکال کر انجیت کے سر پر ہلکا ہلکا کھرچنے لگا۔ جلد ہی اس نے بالوں کے بیچ سے ایک جِھلی کھینچ نکالی۔ اس جھلی کے ذریعہ انجیت کے سر پر لگے ٹانکوںکے نشان چھپائے گئے تھے۔ اس نے بے دردی سے چاقو کھڑا کرکے جھٹکے سے انجیت کے سر میں گھسایا اور کھوپڑی کو خربوزے کی طرح دو ٹکڑوں میں کھول دیا۔ انجیت کی کھوپڑی سے یکدم کالا دھواں نکلنے لگا۔ چند لمحوں بعد ہی رمیز نے چاقو کی مدد سے انجیت کی کھوپڑی میں ایک ڈبیا ڈھونڈ لی۔ وہ ڈبیا جو اَب جل کر کالی ہوچکی تھی…وہ نکال کر بڑے غصے سے اس نے شاگل کے سامنے پٹخی تو شاگل کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ ’’یہ… یہ کیا ہے؟‘‘
’’جاسوسی کا نیا آلہ۔۔۔ یہ احمق انجیت پلکیں جو زور سے جھپکاتا تھا دراصل یہ تصویریں کھینچ رہا ہوتا تھا۔ وہ سب چیزیں ، لوگ اور کاغذات جن کو انجیت کا دماغ اہم سمجھتا۔۔۔ اس آلے کے زیر اثر وہ اُن کی تصویریں کھینچنا شروع کردیتا… اور جوں ہی انجیت کا دماغ وائی فائی کی حدود میں آتا تو یہ آلہ انٹرنیٹ سے کنکٹ ہوکر اپنے اندر موجود تصویریں اس پتے پر بھیج دیتا جو اس میں محفوظ کیا گیا ہے۔ انجیت کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ چیف قمر نے بچوں کی مانند اس کو بیوقوف بنایا کہ اس کے سامنے اپنے جاسوس سے بات کی اور پھر یہ بتایا کہ اس کے وار سے اِس کی آنکھیں متأثر ہوئی ہیں۔ ‘‘ رمیز بول رہا تھا اور شاگل کا منھ حیرت سے پھٹتا جارہا تھا۔
’’ یہ آلہ صرف ایک مرتبہ استعمال ہوسکتا ہے …جس دماغ میں اس کو ایک بار لگا دیا جائے پھر یہ وہاں سے اس آلہ کار کے مرنے کے بعد ہی نکل سکتا ہے۔ ورنہ نکالنے کے دوران ہی انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے اور جیسے ہی انسان کا دل بند ہو کر خون کی گردش رکتی ہے، یہ آلہ خود کار سسٹم کے تحت خود کو تباہ کردیتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ یہ آلہ ابھی ترقی یافتہ ممالک کے جاسوسوں کے بھی عام استعمال میں نہیں آیا تو اس پسماندہ ملک کی سیکرٹ سروس کے پاس کہاں سے آ گیا۔۔۔؟‘‘ رمیز کے لہجے میں عجیب سی بے بسی تھی۔ ’’انجیت کی کھوپڑی تمھارے خلاف جاسوسی کر رہی تھی۔وہ اب تک تمھارے سارے پروگرام اپنے ٹھنڈے آفس میں بیٹھا تباہ کرچکا ہوگا ۔ احمق وہ نہیں، احمق وہ ہم سب کو بنا گیا۔‘‘
رمیز طنزیہ لہجے میں کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ شاگل کٹے ہوئے درخت کی طرح کرسی پر گر گیا تھا۔
اُدھر سالار سب اہم جاسوسوں اور فائلوں کی تصاویر دیکھ رہا اور ہنس رہا تھا۔ انجیت کے ہاتھوں کو کھلا چھوڑنا، گھڑی نہ اتارنا اور اس کے سامنے اپنے جاسوس سے باتیں کرنا۔۔۔ اب سب اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ اس کے دل میں چیف قمر کی عزت اور بڑھ گئی تھی۔

٭…٭