میرا نام منگو ہے

عبید رضا

یہ منگو کی کہانی ہے، بچپن میں اغوا کیے گئے منگو کو اغوا کار بڑھیا (مائی جیناں) کو ریڑھی میں ڈال کر پورا دن، بھیک مانگنا ہوتی ہے، وہ اسی کو اپنی ماں سمجھتا ہے، ایک واقعے کے بعد وہ بڑھیا فیصلہ کرتی ہے کہ منگو کے ہاتھ پاؤں توڑ کر ایک الگ ملازم رکھا جائے جو منگو کو بھی لے کر ریڑھی میں بھیک مانگے اور بڑھیا کو الگ ملازم دھکیلتا پھرے۔ منگو کو تب علم ہوتا ہے کہ وہ اس کا بیٹا نہیں، یہ سن کر وہ بھاگ نکلتا ہے، اور شہر کے ایک نابینا پیر کے گھر پہنچ جاتا ہے، جہاں سے ناول کی اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔

وہ پیر سچ میں نابینا نہیں، وہ اسکول کے لڑکوں کو جو بہت امیر گھرانوں سے ہوتے ہیں، پاس کرانے کے تعویذ کے لالچ دیتا ہے فرشتے دکھاتا ہے اور فرشتوں کے قہر سے ڈرا کر رکھتا ہے۔ وہ لڑکے گھر سے مال و دولت، زیور لے کر اس پیر کے چیلوں کے ہاتھوں، مال گنواتے ہیں اور جان بھی، پورے 47 لڑکے (ایک انگریزی مضمون میں 74 لکھا گیا ہے جو 47 کو 74 لکھ دیا گیا ہے)، پہر اس کے چند کارندے، ان سب نے مل کر ایک انوکھی، خفیہ زبان بنا رکھی ہوتی ہے جس میں وہ ایسی آتیں کرتیں جو منگو کے پلے نہیں پڑتیں، منگو کوشش کرکے ایک دن وہ لغت چرا لیتا ہے جو ہاتھ سے تحریر کردہ ہے اس خفیہ زبان کے الفاظ اور معنی پر مشتمل ہے، وہ جان لیتا ہے کہ یہ تو یہ سب کر رہے ہیں۔ ایک رات اس نے پیر کو دروازہ کھولتے اور ایک لڑکے کو فرشتے دکھاتے، دیکھ لیا، یوں اس پر انکشاف ہوا کہ پیر کو اس کا محسن ہے اصل میں ایک مجرم ہے۔ کہانی پر تجسس، خوفناک اور دل دہلا دینے والی ہے۔ آخر کار یہ منگو ان کا پردہ فاش کرنے، پکڑوانے اور اس بڑھیا کو بھی پکڑوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور معلوم کرا لیتا ہے کہ وہ خود کہاں سے اغوا اور کن کا بیٹا ہے۔

ناول کی سب سے دل چسپ چیز اس میں خفیہ زبان کا استعمال ہے۔ اردو ادب میں شاید ہی کسی اور نے اس سے قبل یا بعد میں ایسی کوشش کی ہو گئی۔ یاد رہے میرا نام منگو ہے، 1960ء کی دہائی کا ناول ہے اور شائع ہوتے ہی مشہور ہوا اور اس کی پی ٹی وی پر ڈرامائی تشکیل بھی ہوئی۔

ناول میں کچھ سخت، دُرشت اور بازاری زبان کے الفاظ بھی ہیں۔ مگر یہ ناول کی کہانی کی درست منظر کشی کرتے ہیں۔ کیوں کہ ناول چند سال کے بچوں کے لیے ہرگز نہیں نہ ہی ان کو اکیلے یہ پڑھنا چاہیے، البتہ یہ ہر بچے کو ایک بار ضرور پڑھانا چائیے، یہ بلاشبہ اپنے دور ہی کا نہیں آج کا بھی ناول ہے۔ آج بھی سرعام پیر لوٹ رہے ہیں اور بچے مال و دولت لٹا کر پاس ہونے کے جتن کر رہے ہیں۔ بچوں کی جان آج بھی جاتی ہے اور جنسی زیادتی و قتل جیسے واقعات بھی ہوتے ہیں۔ بچوں کے لیے ان موضوعات پر مواد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو کچھ ہے وہ اسی 1960ء ہی کی دہائی کا ہے۔ اس کے بعد کے ہمارے بچے جاسوس بھرتی ہو گئے، سارے کے سارے!

اس کلاسیک ناول کے مصنف، جبار توقیر (1933ء -1985ء) ہیں، اس ناول پر مصنف کو یونیسکو کی طرف سے انعام ملا، ناول کی شہرت کے بعد کم و پیش 16 ناول/کتابیں مذید بھی بچوں کے لیے لکھے۔ مگر جو شہرت و مقبولیت ہر دور میں اس ناول کو ملتی رہی ہے، وہ کسی دوسرے ناول کے حصے میں نہ آئی۔

یہ ناول ادیب آن لائن ایپ پر پڑھا بھی موجود ہے اور یہ ناول کئی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ادارہ فیروز سنز اب بھی شائع کرتا ہے۔ ڈرامے کی وڈیو ناپید ہے۔ اپنی خفیہ زبان اور موضوع کی وجہ سے، اب بھی اس کی ڈرامائی تشکیل مفید بھی ہو گی اور یقیناً مقبول بھی۔ قسط وار تعلیم و تربیت میں بھی شائع ہوا، اور گنتی کے ان چند ناولوں میں شامل ہے جو شروع سے اب تک مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ نہیں معلوم کہ اس کا کسی پاکستانی علاقائی زبان میں کبھی ترجمہ ہوا یا انگریزی وغیرہ میں۔ یہ ناول انگریزی میں شائع ہوا ہوتا تو یقیناً درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہوتا اور شاید کئی بار فلمایاجا چکا ہوتا۔

کتاب:

میرا نام منگو ہے

مصنف:

جبار توقیر

صفحات:

111

ناشر:

فیروز سنز۔لاہور

مزید دیکھیے

میاں بلاقی کے کارنامے
اردو ذخیرۂ الفاظ
آئیے سائنس دان بنیں
سفید گیند