بادشاہ کا انصاف

ریاض عادل

پیارے بچو! بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ جنگل کا بادشاہ شیر ایک درخت کے نیچے آرام کررہاتھا۔اس درخت سے تھوڑی دور ایک گدھا ہری ہری گھاس کھانے میں مصروف تھاکہ اچانک ایک بھڑ کہیں سے اڑتی ہوئی آئی اور گدھے کی دم پر کاٹ کر یہ جا اور وہ جا۔گدھا اس اچانک افتاد سے بوکھلا گیا اور لگا ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے۔

بچو! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ گدھے کی آواز کتنی بھدی اورکرخت ہوتی ہے۔گدھے کی چیخ پکارسے شیر کی آنکھ کھل گئی۔نیند ٹوٹنے پر شیرکوسخت غصہ آگیا۔اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فوراًگدھے کو پکڑلیا۔اب تو گدھے کو جان کے لالے پڑ گئے کہ جان بچنی بہت مشکل ہے۔اس نے سن رکھا تھا کہ موجودہ بادشاہ شیر بڑے ظرف والا ہے لہٰذا وہ فوراً منت سماجت کرنے لگا:

”بادشاہ سلامت مجھے معاف کردیں!مجھ سے بڑی غلطی ہوگئی ہے۔آئندہ میں آپ کے آرام میں ہرگز مخل نہیں ہوں گا۔“

”ٹھیک ہے میں تمھیں معاف کردوں گا مگر اپنے کیے کی سزا تمھیں بھگتنی پڑے گی۔“شیر نے اس کی منت سماجت دیکھ کر کہا۔

”بادشاہ سلامت میں ہرطرح کی سزا کے لیے تیارہوں۔“گدھا دل ہی دل میں جان بچ جانے پر خدا کا شکر اداکرنے لگا۔

ابھی شیراور گدھے میں یہ بات چیت ہورہی تھی کہ ایک’تیزرفتار‘وہاں آ نکلا۔شیر نے اسے دیکھتے ہی کہا:”آؤ تیزرفتار،ہم تمھیں منصف مقرر کرتے ہیں۔تم ہی اس معاملے کا فیصلہ سناؤ!“

”بادشاہ سلامت مجھے بتائیے ہوا کیا ہے؟“تیزرفتار کے لہجے سے خوشی صاف جھلک رہی تھی۔اسے پہلی بار احساس ہوا کہ جنگل میں اس کی بھی کوئی حیثیت ہے جو بادشاہ سلامت نے اسے ایک ایسے مقدمے کا فیصلہ کرنے کو کہا ہے جس میں ایک فریق خود جنگل کا بادشاہ بھی ہے۔

شیر نے اسے گدھے کی بدتمیزی کی تمام روداد سنائی اور کہا:”اب تم ہی اس کی سزا کا فیصلہ کرو!“

”بادشاہ سلامت میں سمجھتا ہوں گدھے کے دونوں کان کاٹ دیے جائیں!“تیزرفتارنے ایک سرشاری کے عالم میں اپنے تئیں فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔اس کے دل میں شاید یہ خیال بھی تھا کہ ہوسکتا ہے بادشاہ اس کے فیصلے سے خوش ہو کر اسے اپنامشیر بنالے۔

شیر نے کہا:”ٹھیک ہے مجھے تمھارا فیصلہ مناسب لگتا ہے، لہٰذا میں گدھے کے دونوں کان کاٹ لیتاہوں؛ تاکہ اسے نصیحت ہو اور یہ آئندہ اس طرح کی بدتمیزی نہ کر سکے۔“

اس سے پہلے کہ گدھا اپنی سزامیں کمی کی درخواست کرتا شیر نے پلک جھپکنے میں اس کے دونوں کان کاٹ ڈالے۔گدھے کودرد تو بہت ہوا مگر بادشاہ سلامت کی ناراضی اورغصے کے ڈر سے درد سہہ گیا۔اسے تیزرفتار سے بھی گلہ تھا کہ اس نے انصاف نہیں کیا۔ایک لحاظ سے اس کا گلہ بھی بجا تھا کیونکہ اسے گدھے کی بات بھی سننی چاہیے تھی؛تاکہ انصاف پر مبنی فیصلہ ہوتا۔

”ٹھیک ہے تم دونوں اب اپنی اپنی راہ لو!اور گدھے میاں میں تمھارے دونوں کان اپنے ساتھ لے جاتا ہوں؛تاکہ دوسرے جانور بھی اس سے عبرت پکڑیں۔“

تیزرفتار برق رفتاری سے ایک طرف کو نکل گیا جب کہ گدھا تکلیف کے عالم میں وہاں سے اٹھا اور اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑا۔راستے میں اس کی ملاقات ایک گیدڑ سے ہوئی۔گیدڑ کے پوچھنے پر گدھے نے تمام احوال اس کو بتایا۔گدھے کی بپتا اور تیزرفتار کافیصلہ سن کر اس کا دل اداس ہو گیا۔وہ بولا:”اگراس طرح غلطیوں پرسزا کا سلسلہ چل پڑا تو پھر اس جنگل میں ہمارا جینا دوبھر ہوجائے گا۔ایسا کرتے ہیں بی لومڑی کے پاس چلتے ہیں اور اسے تمام روداد سناتے ہیں۔ہوسکتا ہے وہ کوئی راستہ نکال لے؛ تاکہ آئندہ بادشاہ سلامت کسی کواس طرح کی سزا نہ دیں۔“

بچو! آپ کو تو پتا ہے کہ لومڑی کی چالاکی بڑی مشہور ہے۔بی لومڑی نے تمام واقعہ سننے کے بعد ان سے ہمدردی کااظہار کیا اور تسلی دی کہ تم لوگ پریشان نہ ہومیں کچھ کرتی ہوں۔پھر اس نے گیدڑ سے کہا:

”وہ گدھے کو بھالو حکیم کے پاس لے جائے؛ تاکہ اس کے کان کے زخموں کا علاج ہوسکے!“ انھیں یہ ہدایت دے کروہ خود بادشاہ سلامت سے ملاقات کے لیے نکل پڑی۔اس کے ذہن میں فور ی طور پر ایک ترکیب آچکی تھی۔

دوسری طرف شیر اپنی غار میں پہنچ کرآرام کررہاتھا کہ لومڑی وہاں پہنچی اوراندر آنے کی اجازت مانگی۔شیرسے اجازت ملتے ہی وہ اس کے قریب گئی اور آداب بجالائی۔

”کہو بی لومڑی! کیسی ہو؟جنگل کی کیا خبریں ہیں؟“

بی لومڑی تو خود موقع کی تلاش میں تھی کہ مناسب موقع ملے تو بات کی جائے اب جب شیر نے خود ہی پوچھ لیا تو بولی:”بادشاہ سلامت آپ کا اقبال بلند ہو! اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟“

”کہو بی لومڑی بلا تکلف کہو!تمھیں پتا ہے ہم تمھاری کتنی عزت کرتے ہیں۔“شیر نے اس کی طرف پیاربھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔لومڑی ہی تھی جو اسے سارے جنگل کی خبریں بروقت فراہم کرتی تھی۔

”عالی جاہ یہ آپ کا بڑا پن ہے اورحضور بہترجانتے ہیں کہ آپ کی خیرخواہی ہی میرا مقصدہے۔حضور گدھے کے کان کاٹنے والی بات پورے جنگل میں پھیل چکی ہے۔سارے جانور اس بات سے پریشان ہیں کہ ہمارے بادشاہ سلامت تو بہت ہی نرم دل اور اپنی رعایاکا بہت خیال رکھنے والے ہیں پھر انھوں نے گدھے جیسے مسکین جانورکو اتنی بڑی سزاکیوں سنائی؟۔۔۔“

لومڑی ابھی بات کررہی تھی کہ شیر نے درمیان سے بات کاٹ دی:“بی لومڑی یہ بتاؤ جانور کیا کہہ رہے تھے؟“

لومڑی نے اپنی ترکیب کامیاب ہوتے دیکھی تو بولی:”حضور ان کے ذہن میں یہ خیالات شائد آئے بھی ہوں کہ اب ہمارے بادشاہ سلامت کا رویہ تبدیل ہورہا ہے مگر میں نے صورت حال سنبھال لی اور ان سے کہا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتاکہ ہمارے بادشاہ سلامت کسی جانور کو سزا دینے کا سوچیں بھی،ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی نے ان کو غلط مشورہ دیا ہوورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ بادشاہ سلامت اور ان کے آباؤاجدادکتنے رحم دل اور اپنی رعایا کا کس قدر خیال رکھنے والے مشہور ہیں۔“لومڑی کالہجہ خوشامد بھرا تھا۔

شیر لومڑی کی باتیں سن کر دل ہی دل میں شرمندہ ہورہاتھا کہ اس کے بارے میں جنگل کے جانور کیا سوچیں گے۔اس نے لومڑی کو ساری بات بتائی اور کہا:”میں نے تیزرفتارکا فیصلہ مان کربڑی غلطی کردی ہے اور اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟“

”عالی جاہ میرے ذہن میں ایک ترکیب ہے۔اس پر عمل پیرا ہوکرآپ انصاف پسند مشہور ہوجائیں گے اور جنگل میں دوبارہ آپ کی نیک نامی کے چرچے ہوں گے۔“

لومڑی نے اپنی ترکیب بادشاہ سلامت کو سنائی۔لومڑی کی ترکیب سن کر شیربہت خوش ہوااور کہنے لگا:”بی لومڑی تم واقعی عقل مند ہواور آج کے بعد تم ہی میری مشیرخاص ہو۔“

”حضور کی زرہ نوازی ہے،لومڑی اتنا بڑااعزازپاکرخوشی سے پھولے نہ سمارہی تھی،بس آپ کان سنبھال کررکھیں باقی معاملات میں دیکھ لیتی ہوں۔“

شام تک لومڑی سب جانوروں تک یہ اطلاع پہنچا چکی تھی کہ کل بادشاہ سلامت نے جنگل کے مرکزی میدان میں بہت بڑا اجلاس بلایا ہے جس میں تمام جانوروں کی شرکت لازمی ہے۔دوسری طرف تیزرفتار یہ سوچ رہاتھاکہ ہو نہ ہو کل مجھے بادشاہ سلامت ضرورکوئی عہدہ دیں گے۔

دوسرے دن صبح ہی صبح اجلاس والا میدان جانوروں سے بھرا ہواتھاجس میں گدھا بھی اپنے زخموں سمیت موجود تھا۔سارے جانورآپس میں باتیں کررہے تھے کہ شیر کی آمد کے ساتھ ہی شور تھم گیا۔سارے جانوروں نے کھڑے ہوکر شیرکااستقبال کیا۔شیر نے ایک اونچی جگہ پر مخصوص اپنی نشست سنبھال کر سب کو بیٹھنے کااشارہ کیااورلومڑی سے مخاطب ہوا:”بی لومڑی آج کی کارروائی کا آغاز کیا جائے!“

لومڑی نے باشاہ کی اجازت سے کہنا شروع کیا:”آج کا اجلاس اپنی نوعیت کا ایک اہم اجلاس ہے۔کل رونما ہونے والا واقعہ آپ سب لوگوں کو معلوم ہے،پھر بھی میں کارروائی کے طور پر دوبارہ آپ کے گوش گزار کرتی ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے لومڑی نے گدھے کے کان کاٹنے والا واقعہ دوبارہ تفصیل سے سب کو سنایا اور کہنے لگی:”میں اب بادشاہ سلامت سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ تشریف لائیں اور کارروائی کو آگے بڑھائیں۔“

شیر کھڑاہوا تو تمام جانوراس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔شیر نے سب کو بیٹھنے کا کہااور کہنے لگا:”جیسا کہ تمام واقعہ آپ کے علم میں ہے۔میں سمجھتا ہوں ایک اچھے حکمران کو ہمیشہ درگزر اور احسان سے کام لینا چاہیے مگر میں اس معاملے میں ناکام رہا جس کی بنیادی وجہ تیزرفتار کا فیصلہ ہے۔بادشاہوں کو دوسروں کے فیصلے اور مشورے سوچ سمجھ کر قبول کرنے چاہییں۔تیزرفتار کے اس فیصلے کو مان کر ہم نے بڑی غلطی کی ہے اور گدھے کو اپنے کانوں سے محروم ہونا پڑا،ازالے کے طورپر گدھے کے علاج معالجے کا ساراخرچہ ہم اٹھائیں گے اور جب تک اس کا زخم ٹھیک نہیں ہوجاتا اس کے کھانے کے لیے گھاس اور دوسری چیزیں ہم مہیا کریں گے۔“

میدان میں ”سلامت سلامت“ کا شور مچ گیا سارے جانور ”بادشاہ سلامت زندہ باد“ کے نعرے لگانے لگے۔شیر نے اشارے سے انھیں چپ کرایا اور کہنے لگا:”چوں کہ تیزرفتارنے انصاف کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا اورٹھیک فیصلہ نہیں کیا لہٰذا اسے بھی سزا دی جائے گی؛تاکہ آئندہ اگر اسے کبھی موقع ملے تو تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر انصاف سے فیصلہ کرے۔تیزرفتار کی سزا یہی ہے کہ اس کے کان بھی کاٹے جائیں اور گدھے کے یہ کان تیزرفتار کو لگا دیے جائیں۔“شیر نے اپنے پاس رکھے گدھے کے کتے ہوئے کانوں کی طرف اشارہ کیا اور اپنی بات جاری رکھی:”چیتا تیزرفتار کے کان کاٹے گا اور بھالوحکیم گدھے کے کان تیزرفتار کو لگا دے گا!“

فیصلے پر فوری عمل ہوا توسب نے دوبارہ”بادشاہ سلامت زندہ باد“کے نعرے لگائے کہ بادشاہ سلامت نے انصاف سے کام لیا ہے۔اور پیارے بچو اس دن کے بعد سے تیزرفتار کو خرگوش کہا جاتا ہے یعنی گدھے کے کانوں والا۔

٭٭٭