آج کل امتحان ہو رہے ہیں۔ طالب چچا نے پوچھا:’’ کیوں بچو! تمھارے پرچے کیسے ہوئے؟‘‘سیما بولی:’’بس ہو ہی گئے۔ دو سوال چھوٹ گئے۔‘‘
ریاض نے کہا:’’ طالب چچا اس سے پوچھیے دو سوال کیسے چھوٹ گئے؟ دراصل قمیص کی جیب سے کارتوس نکالنے کا موقع نہیں ملا۔‘‘
’’ یہ کارتوس کیا ہوتا ہے؟‘‘ طالب چچا نے حیرت سے سوال کیا:’’ کیا تم لوگ امتحان کمرے میں رائفل اور کارتوس بھی ساتھ لے جاتے ہو؟‘‘
میں نے کہا:’’ ننھے ننھے پرزے ہوتے ہیں، جن پر بچے سوالوں کے جواب لکھ کر ساتھ لے جاتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو بہت بری بات ہے۔‘‘ طالب چچا بولے:’’نقل کر کے امتحان پاس کرنا؟ تف ہے ایسی کامیابی پر!‘‘
ریاض نے سوال کیا:’’ طالب چچا کیا آپ لوگ امتحان میں نقل نہیں کرتے تھے۔‘‘
طالب چچا بولے:’’ ہمارے زمانے میں ایک تو سختی بہت ہوتی تھی، دوسرے اچھے بچے ایسی باتوں سے بہت دور رہتے ہیں۔ آٹھویں کلاس میں ہم نے نقل کرنے کا انجام دیکھ لیا تھا جب بدرل کی ٹوپی سے تاریخ کا خلاصہ پکڑا گیا اور ہمارے کلاس ٹیچر بیگ صاحب نے بدرل کو کان سے پکڑ کر پورے ہال میں دو چکر لگوائے تھے۔توبہ توبہ ایسی ذلت کسی کی نہ ہوئی ہو گی ہم سب نے اپنے اپنے کانوں کو ہاتھ لگائے۔‘‘
یہ قصہ سنا کر طالب چچا بولے:’’ ہمارے ریاضی کے استاد تھے شریف صاحب۔ دبلے پتلے، پستہ قد لیکن آواز کراری پائی تھی۔ دبے پائوں چلتے تھے اور دشمن کے سر پر اچانک پہنچتے تھے۔ نویں کلاس کے امتحان میں شریف صاحب ہمارے نگراں تھے۔ پرچے تقسیم کرنے کے بعد انھوں نے اپنے تھیلے میں سے روز کا اخبار نکالا اور اونچی کرسی پر آرام سے پائوں پھیلا کر بیٹھتے ہوئے بولے:’’ میرے اچھے دوستو! اپنا اپنا کام کرو۔ ادھر ادھر دیکھنے ، کھسر پھسر کرنے اور نقل کرنے کی کوشش ہرگز نہ کرنا ورنہ اس کی سخت سزا ہے۔ اب میں تم پر اعتبار کرتا ہوں اور تمھاری کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر شریف صاحب نے اخبار کے ورق کھولے اور آرام سے پڑھنے لگے۔ ذرا دیر بعد ہم نے دیکھا کہ پورا اخبار ان کے منہ پر پھیلا ہوا تھا اور وہ اخبار دیکھتے دیکھتے شاید اونگھ گئے تھے یا واقعی سو رہے تھے۔ لڑکوں نے جب دیکھا کہ میدان صاف ہے تو پہلے آپس میں اشارے شروع ہوئے، پھر لڑکوں نے جیب سے پرزے نکال لیے۔ ایک دو نے تو آپس میں نوٹس کا تبادلہ بھی کیا۔
اچانک اخبار اڑ کر زمین پر جا گرا اور شریف صاحب چیتے کی طرح انگڑائی لے کر کھڑے ہو گئے۔ انھوںنے وہیں سے للکارا:’’ میں سب دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر انھوں نے ایک ایک کا نام لے کر آواز دی:’’ کھڑے ہو جاؤ، ادھر آؤ، باہر نکلو!‘‘
معلوم ہوا کہ شریف صاحب نے جو اپنے نام سے زیادہ شریف تھے، اس روز کے اخبار میں بہت سے سوراخ بنا لیے تھے جن سے وہ سارے ہال کا منظر آنکھیں کھولے دیکھ رہے تھے۔ ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ انھوں نے اخبار منہ پر پھیلا رکھا ہے تو یقیناً سو رہے ہوں گے۔ انھوں نے سبھی کی چوریاں پکڑیں اور سزائیں بھی دلوائیں۔
لیکن اس سے زیادہ خطر ناک واقعہ بورڈ کے امتحان میں پیش آیا۔ ہمارا ایک دوست تھا شابو، بہت موٹا تھا اس لیے ’شابو موٹا‘ کہلاتا تھا۔ لڑکے اس سے ڈرتے بھی بہت تھے۔ مجھ سے کہنے لگا:’’ میری تمھاری سیٹیں ساتھ ساتھ ہیں اس لیے میری مدد ضرور کرنا۔‘‘
میں نے صاف انکار کر دیا۔بدرل بولا:’’ کوئی حرج نہیں تمھاری مدد میں کروں گا۔‘‘
اس دن اردو کا پرچہ تھا۔ بدرل اپنی دونوں جیبوں میں اردو کے نوٹس چھپا کر لایا تھا۔ اس نے شابو کو اشارے سے بتایا کہ فکر نہ کرنا، میری دونوں جیبیں بھری ہوئی ہیں۔ اس اشارے بازی کے بعد جو واقعہ پیش آیا وہ ہمارے اسکول کی تاریخ میں آج تک ریکارڈ کے طور پر محفوظ ہے۔
بدرل نے سر اٹھا کر کر پہلے تو پانی کی فرمائش کی پھر ایک انگلی کا اشارہ کیا کہ مجھے غسل خانے جانا ہے اور چہرے پر ایسی بے بسی طاری کرلی کہ معاملہ بہت ضروری ہے۔ نگراں نے کہا:’’جاؤ!‘‘
بدرل تیزی سے باہر نکل گیا۔ اب شابو موٹا اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔ اس نے بھی ایک انگلی کا اشارہ کیا۔ نگراں نے خوش دلی سے کہا:’’ ہاں تم بھی جاؤ۔‘‘ اپنے پروگرام کے مطابق وہ بھی ہال سے باہر نکل گیا۔
بڑی دیر ہو گئی۔ بدرل اور شابو دونوں واپس نہیں آئے۔ پھر جب امتحان کا وقت ختم ہوا، گھنٹی بجی اور ہم سب باہر نکلے تو دیکھا کہ ہیڈ ماسٹر کے دفتر کے سامنے دونوں مرغا بنے ہوئے ہیں۔ دونوں نے معافی مانگ کر بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی۔
میں نے بدرل اور شابو دونوں دوستوں سے پوچھا:’’ یار بتاؤ تو سہی یہ حادثہ کیسے گزرا؟‘‘ بدرل بولا:’’ غسل خانے میں داخل ہونے کے بعد میں نے کاغذ کے پرزے جیب سے نکالے اور ساتھ والے غسل خانے سے شابو کے کھانسنے کا انتظار کرنے لگا۔ میں نے اسے امتحان ہال سے باہر نکلتے دیکھ لیا تھا۔ ساری اسکیم پہلے سے طے تھی لیکن۔۔۔‘‘
شابو نے کہا:’’ اب تم میری بھی تو سنو۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے راستے میں دیکھا تو روک لیا اور کہا پہلے لڑکے کو واپس آنے دو۔ پھر وہ حضرت خود غسل خانے کی طرف چل پڑے اور میں کھڑا ان کا منہ دیکھتا رہ گیا۔‘‘
’’ پھر یہ ہوا۔‘‘ بدرل نے کہانی کا سرا جوڑتے ہوئے کہا:’’ کہ میں نے جب ساتھ کے غسل خانے سے کھانسی کی آواز سنی تو مرزا رفیع سودا کی سوانح عمری فر فر پڑھ کر سنانے لگا۔ ابھی میں درمیان میں ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور ایک گرجدار آواز سنائی دی:’’ شامت آئی ہے کیا؟‘‘
میری تو جان ہی نکل گئی۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا تو ہیڈ ماسٹر صاحب لال لال آنکھیں نکالے موت کے فرشتے کی طرح سر پر سوار تھے۔ انھوں نے مجھے کان سے پکڑا اور پلٹتے ہی چپڑاسی کو آواز دی:’’ پکڑنا اس لڑکے کو، کیا نام ہے اس کا، شہاب الدین خبردار جانے نہ پائے۔‘‘
شابو بولا:’’ ابھی میں بھاگنے کے لیے دائیں بائیں دیکھ ہی رہا تھا کہ چپڑاسی نے آ کر گردن دبوچ لی۔‘‘
پھر یہ ہوا کہ ماسٹر صاحب نے دونوں شریر لڑکوں کے سر آپس میں ٹکرا دیے اور اس کے بعد مرغا بنایا۔
٭٭٭