بطخوں کا بٹوارہ

کمال احمد رضوی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک غریب آدمی رہتا تھا، جو بہت ہی سمجھ دار اور عقل مند تھا۔ اس کے گھر میں صرف اس کی ایک بیوی تھی۔ یہ دونوں میاں بیوی اتنے غریب اور مفلس تھے کہ کئی کئی روز تک فاقہ ہوتا رہتا۔ گھر کی تمام چیزیں ایک ایک کر کے بک گئیں اور آخر کار ایک بطخ رہ گئی۔ جب بھوک نے انھیں بہت زیادہ ستایا تو اس شخص نے اللہ کا نام لے کر بطخ کو ذبح کر دیا اور اپنی بیوی کے حوالے کرتے ہوئے کہا:’’ لو بھلی مانس اسے پکالو!‘‘
بیوی کہنے لگی:’’ نہ گھر میں آٹا ہے جس سے روٹی پکالیں اور نہ نمک مرچ مسالا ہے کہ جس سے یہ بطخ پکالوں۔ روکھی پھیکی بطخ تیار کر کے کیا کریں گے؟‘‘
چناں چہ اس آدمی نے اپنی بیوی سے کہا:’’ اچھا تو میں گاؤں کے چودھری کے پاس یہ بطخ لے کر جاتا ہوں اور اسے نذرانہ پیش کرتا ہوں، شاید وہ کچھ روپے دے دے۔‘‘
وہ آدمی ذبح کی ہوئی بطخ لے کر سیدھا گاؤں کے چودھری کے گھر پہنچا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ چودھری گھر سے باہر نکلا تو اس نے وہ بطخ دیتے ہوئے کہا:’’چودھری جی میرے پاس صرف یہی ایک آخری سہارا تھا، سو وہ آپ کی نذر کرنے لایا ہوں۔‘‘
چودھری اسے گھر کے اندر لے گیا، پھر اپنی بیوی بچوں کو آواز دے کر بلایا اور ان کے سامنے اس شخص سے کہنے لگا:’’ تو خود ہی یہ بطخ ہم لوگوں میں بانٹ دو، مگر خیال رہے ہر ایک کو ٹھیک ٹھیک حصہ ملے۔‘‘
چودھری کی ایک بیوی تھی، دو لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔یعنی کل ملا کر وہ چھ تھے۔ اس آدمی نے چاقو لیا اور سب سے پہلے بطخ کا سر کاٹا، اسے چودھری کے حوالے کر کے کہنے لگا:’’ آپ چوں کہ اس خاندان کے سرپرست ہیں اس لیے سر آپ کا حصہ۔‘‘ اس کے بعد اس نے بطخ کی ناک کاٹی اور چودھرائن کے حوالے کرتے ہوئے بولا:’’آپ اس گھر کی مالکہ ہیں اس لیے آپ کو مرد کی ناک کی حفاظت کرنی چاہیے لہٰذا یہ آپ کی ہوئی۔‘‘اس کے بعد اس نے بطخ کے دونوں پاؤں کاٹے اور دونوں لڑکوں کے سپرد کرتے ہوئے کہنے لگا:’’تم اپنے باپ کے پاؤں ہو، یعنی تم اپنے باپ کا سہارا بنو گے اس لیے یہ دونوں پاؤں تمھارے ہوئے۔‘‘ اس کے بعد اس آدمی نے بطخ کے دونوں پنکھ کاٹے اور دونوں لڑکیوں کے حوالے کرتے ہوئے بولا:’’ تم دونوں اس طرح گھر سے پنکھ اڑاتی دوسروں کے گھروں میں چلی جاؤ گی اس لیے یہ پنکھ تمھارا حصہ ہے۔‘‘ اور باقی حصہ جو بچا وہ خود لے لیا۔ وہی گوشت سے بھرا ہوا تھا۔ چودھری اس شخص کی عقل مندی پر بہت خوش ہوا اور اسے بہت سے روپے دے کر رخصت کیا۔
ایک پڑوسی کو جب یہ خبر ملی تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا اس نے سوچا کہ چلو اسی بہانے چودھری سے روپیا اینٹھا جائے۔ چناںچہ اس بھلے آدمی نے پانچ بطخیں خریدیں اور انھیں لے کر چودھری کے گھر پہنچ گیا اور بولا:’’چوہدری صاحب، یہ تحفہ میری طرف سے قبول کیجیے۔‘‘
چوہدری نے اپنے بیوی بچوں کو بلا کر ان کے سامنے اس شخص سے کہا:’’ان بطخوں کو تم خود ہم لوگوں میں بانٹ دو اور اس طرح بانٹو کہ کوئی نقصان میں نہ رہے۔‘‘اس شخص نے بہت دیر تک سوچا اور غور کیا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ بھلا چھ افراد میں پانچ بطخوں کو کس طرح بانٹا جائے کہ کوئی بھی نقصان میں نہ رہے۔ اسے غصہ بھی آیا کہ وہ چھ بطخیں کیوں نہ لایا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ آخر جب اس سے کچھ نہ بن پڑا تو چودھری نے پہلے شخص کو بلوا بھیجا۔
جب وہ شخص آیا تو چودھری نے اس سے کہا:’’ ان بطخوں کو ہم چھ آدمیوں میں بانٹ دو۔‘‘اس شخص نے ایک بطخ اٹھائی اور چودھری اور چودھرائن کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگا:’’ یہ لیجیے، اب آپ لوگ تین ہو گئے۔‘‘ ایک بطخ اٹھائی اور دونوں لڑکوں کے حوالے کرکے کہا:’’ تم بھی تین ہو گئے۔‘‘ ایک بطخ دونوں لڑکیوں کو دیتے ہوئے بولا:’’ یہ تم لے لو، تم بھی تین ہو گئیں۔‘‘ اور دو بطخیں خود رکھ کر بولا:’’ لو ہم بھی تین ہو گئے۔‘‘
چودھری اس کی عقل مندی پر اور بھی خوش ہوا اور اسے اپنی زمیں کا کچھ حصہ دے دیا تاکہ وہ اپنی باقی زندگی آرام سے گزار سکے اور وہ لالچی آدمی منہ دیکھتا رہ گیا۔

٭٭٭