ننھی چڑیا

غلام عباس

ننھی صغرا چوزوں کو دانہ ڈال رہی تھی۔ اتنے میں ایک ننھی چڑیا اڑتی ہوئی چوزوں میں آ کر بیٹھ گئی اور بڑی دیر تک ان چوزوں میں بیٹھی رہی۔ صغرا بولی:’’ کیا چھوٹی سی چڑیا ہے، یہ یہاں سے چلی کیوں نہیں جاتی۔‘‘ اتنے میں چوزوں کی ماں بی مرغی مٹکتی ہوئی اُدھر آ نکلی، بھاگ کر چڑیا کے پاس گئی اور اسے ٹھونگ مار کر کہنے لگی:’’ جاؤ جی یہاں سے! کیا تیرے باوا کا مکان ہے؟‘‘ اتنے میں گھر کی بلی نے اسے دور سے بھانپا اور بی مرغی سے کہنے لگی:’’ آپا! تم چپکی ہو رہو۔ مہمان گھر میں آئے تو اس کی خاطر تواضع کرنی لازم ہے۔‘‘ اور پھر ننھی چڑیا کی طرف لپکی۔ بے چاری چڑیا تھر تھر کانپنے لگی۔ اسے بلی کی آنکھوں میں اپنی موت نظر آئی۔ ڈر کر طاق میں جا بیٹھی۔

تھوڑی دیر کے بعد ایک بڑا ہیبت ناک کتا لنگڑاتا ہوا اس طرف آ نکلا۔ اس کے دائیں طرف کے کان پر خارش نکلی ہوئی تھی اور کان کے با جھڑ گئے تھے۔ وہ اپنی لال لال انگارا سی آنکھوں سے چڑیا کو گھورنے لگا۔ یہ چڑیا دم بخود ہو کر طاق میں بیٹھی رہی اور دل ہی دل میں کہہ رہی تھی:’’ اللہ میاں! مجھے اس مصیبت سے باہر نکال اور جو نہیں نکالتا تو پھر مجھ پر بجلی ہی گرا دے۔‘‘
دن بھر ننھی چڑیا طاق ہی میں بھوکی پیاسی بیٹھی رہی اور ڈر کے مارے کانپتی رہی۔ اس کا دل اس زور سے دھک دھک کرتا رہا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اب بند ہوا کہ اب بند ہوا۔ رات ہو گئی، آسمان پر ستارے جھلملانے لگے لیکن ننھی چڑیا ڈر کے مارے طاق میں بیٹھی رہی۔
صبح سے ننھی چڑیا بھوکی پیاسی طاق میں بیٹھی تھی۔ اب توپیاس کے مارے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ پھر کہنے لگی:’’ اے اللہ میاں! مجھے پانی کا ایک قطرہ ہی مل جاتا، لیکن اگر میں اس طاق سے باہر نکلی تو بلی مجھے اپنا نوالہ ہی کر لے گی۔‘‘ تب گھر کا ملازم لڑکا جھمن کڑوے تیل کا چراغ جلا کر اس طاق میں رکھنے کے لیے آیا۔ چڑیا دبک کر کونے میں بیٹھی رہی اور رات بھر’’ اے اللہ! میں اب کیا کروں؟ میں اب کیا کروں؟‘‘ اپنے دل ہی دل میں کہتی رہی اور روتی رہی۔
آخر خدا خدا کر کے رات ختم ہوئی اور دن کا اجالا ہر طرف پھیلنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد کسان کا لڑکا ادھر آ نکلا۔ اس نے جو ننھی چڑیا کو طاق میں دبکے بیٹھے دیکھا تو اسے بہت ترس آیا۔ بولا:’’ اے ہے، بیچاری چڑیا کا کوئی پر ٹوٹ گیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اڑ نہیں سکتی اور یہاں دبک کر بیٹھی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر چلا گیا ۔ کسان کے لڑکے کے منہ سے’ پر‘ کا نام سنتے ہی چڑیا کی زبان سے خوشی کے مارے چیخ نکل گئی۔ اسے اپنی بے عقلی پر سخت غصہ آیا۔ پھر ایکا ایکی اسے اپنے پروں کا خیال آیا اور وہ پھر سے آسمان کی طرف اڑ گئی اور آن کی آن میں نظروں سے غائب ہو گئی۔

٭٭٭