صحرا کا سفر

اعظم طارق کوہستانی

سات سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے کہانی

صحرا میں سفر کرتے ہوئے آج انھیں تیسرا دن ہونے کو آیا تھا۔ چلچلاتی ہوئی دھوپ میں پسینہ پانی کی مانند نکل رہا تھا اور اب تو ان باپ بیٹوں کے جسموں میں موجود پانی پسینے کی صورت میں تقریباً نکل چکا تھا۔ اس لیے پسینہ نکلنے کی رفتار کم ہوگئی۔ صحرا کے اس سفر میں صالح کو محسوس ہوا کہ وہ راستہ کھوچکا ہے… لیکن وہ ہر بات اپنے دونوں بچوں کو بتا کر انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ صالح کے دو بچے تھے…عمر اور حذیفہ… ۱۳ سال کے عمر اور ۱۵ سال کے حذیفہ کے چہرے ابھی تک ہشاش بشاش تھے…یا پھر وہ اپنے ابو کو یہ محسوس نہیں کرانا چاہتے تھے کہ وہ بری طرح تھک چکے ہیں۔ ان کے اونٹ بھی نڈھال ہوچکے تھے…اچانک صالح کی نظر دور صحرا میں ایک قافلے پر پڑی۔
’’وہ دیکھو! شاید کوئی قافلہ اس سمت آرہا ہے۔‘‘صالح نے خوشی کا اظہار کیا۔
عمر اور حذیفہ بھی کھل اٹھے…پیاس کی شدت سے ان کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ان کے پاس جو پانی تھا۔ وہ نجانے کب کا ختم ہوچکا تھا۔
’’شکر ہے اللہ کا…ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا اب شاید ہی ہم بچ سکے۔‘‘ حذیفہ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا۔
’’اللہ جب کسی کو بچان یکا تہیہ کر لیتا ہے تو پھر اسے دنیا کی کوئی طاقت چاہے وہ بھوک یا پیاس کی صورت میں ہو نہیں مار سکتی۔‘‘
عمر نے کہا تو صالح مسکرا اٹھا۔ اسے لگا کہ اس کی تعلیم وتربیت رنگ لارہی ہے۔
قافلہ اب قریب آچکا تھا۔ انہوں نے نہ صرف انھیں پینے کے لیے پانی دیا بلکہ ان کے اونٹوں کو بھی خوب پانی پلایا۔ صالح نے ان سے اپنی مطلوبہ منزل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا:’’ یہاں سے ۱۰۰ میل کے فاصلے پر چٹیل میدان شروع ہوجائے گا، اس میدان کو پار کر نے پر آپ کی منزل قریب آجائے گی۔‘‘
قافلے کا ایک عمر رسیدہ آدمی آگے بڑھا اور صالح سے مخاطب ہوا:’’ چٹیل میدان میں اکا دکا زقوم کے درخت لگے ہوئے ہیں…خبردار انھیں ہاتھ لگانے سے گریز کرنا۔‘‘
زقوم درخت کا نام سن کر صالح چونک پڑا:’’بہت اچھا جناب! آپ نے بتادیا۔‘‘
قافلے والوں نے ان سے اجازت لی…وہ جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچنا چاہتے تھے۔ کیونکہ ان کے کچھ اونٹوں کو تونس کی بیماری لاحق ہوچکی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ شہر میں جا کر انھیں بیچ دیں تاکہ قصاب ان کو ذبح کرکے ان کا گوشت فروخت کرسکے۔
ادھر عمر اور حذیفہ کا حال بہت برا تھا۔ وہ ’’زقوم کے درخت‘‘جیسے نئے الفاظ کو سن کر پریشان تھے وہیں ’’تونس کی بیماری‘‘ کا سن کر ان کا تجسس مزید بڑھ گیا۔ وہ جلد از جلد اپنے ابو سے اس بارے جاننا چاہ رہے تھے لیکن قافلے والوں کے ساتھ گفتگو کرتے دیکھ کر وہ خاموش ہوگئے۔ صالح نے بھی ان کی بے چینی کو محسوس کرلیا تھا۔

٭…٭

قافلے والوں سے رخصت ہو کر صالح، عمر اور حذیفہ پر مشتمل یہ قافلہ اپنی منزل کی جانب چل پڑا۔ عمر اور حذیفہ دونوں ہی ذہین بچے تھے۔ وہ جب بھی کسی نئے لفظ کو سنتے تو اس کی پوری تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کرتے… یہی وجہ تھی کہ وہ دیگر بچوں سے زیادہ چیزیں جانتے تھے۔ اب بھی دونوں بھائی انہی دو الفاظ میں الجھے ہوئے تھے جو انہوں نے کچھ دیر قبل قافلے والوں سے سنے تھے۔
حذیفہ نے اپنی بے چین طبیعت کو چین دینے کے لیے ابو سے پوچھ ہی لیا۔
’’ابو یہ زقوم کا درخت اور تونس کی بیماری … یہ دونوں نئے الفاظ ہم نے آج ہی سنے ہیں۔‘‘
صالح دھیرے سے مسکرایا اور بولا:’’ میں اگلے سال تم دونوں کو استاد حنیف بن یحییٰ کے پاس بھیجوں گا تاکہ تم دونوں قرآن کو اچھی طرح سمجھ کر پڑھ سکو۔‘‘
’’لیکن زقوم اور تونس کی بیماری کا قرآن سے کیا تعلق؟‘‘ عمر نے نا سمجھتے ہوئے کہا۔
’’بہت گہرا تعلق ہے… کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ زقوم کا درخت ظالموں کے لیے سخت آزمائش کا باعث ہوگا۔ یہ درخت جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے۔ جہنمیوں کے لیے اس کا پھل شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں، اور یہ ان کا کھانا ہوگا۔‘‘(الصافات۶۲۔۶۸)
’’پھر دنیا میں اس درخت کا کیا کام۔‘‘ حذیفہ نے بڑا اچھا نکتہ اٹھایا تھا۔
’’ دنیا میں تھور کے درخت کو زقوم کے درخت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔‘‘
اچھا جبھی وہ بزرگ ہمیں اس درخت سے بچنے کا کہہ رہے تھے، تھور کا درخت وہی نا جس کے پتوں سے دودھ جیسا مادہ نکلتا ہے۔‘‘ عمر نے کچھ کچھ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’جی… وہی تھور کا درخت ہے۔‘‘ صالح نے کہا۔
ابو تھور کے درخت کا تو پتا چل گیا لیکن یہ اونٹوں کو لگنے والی تونس کی بیماری کیا بلا ہے۔‘‘
حذیفہ نے اپنے اونٹ کی لگام کو حرکت دیتے ہوئے کہا۔ اس کا اونٹ تھوڑا سست تھا۔ اس لیے وہ بار بار پیچھے رہ جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے حذیفہ کو صحیح سنائی نہیں دے رہا تھا۔
’’جس اونٹ کو تونس کی بیماری ہوتی ہے ان میں ایک خاص تبدیلی آتی ہے۔اس بیماری کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اونٹ پانی پیتا چلا جاتا ہے مگر اس کی پیاس کسی طرح نہیں بجھتی۔‘‘
’’اوہو…! یہ تو بڑی خطرناک بیماری ہے۔‘‘ عمر نے کہا۔
’’ جی …اور اللہ نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی بری اور اللہ کو ناراض کرنے والی حرکتوں سے باز آجائے وہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو جہنم میں جائیں گے اور جہنم میں تھور کا درخت تمہارا کھانا ہوگا اور گرم کھلتا ہوا پانی پینے کے لیے ہوگا…اور یہ پانی بھی تم اس طرح پیوگے جس طرح تونس لگا ہوا اونٹ پانی پیتا ہے۔‘‘(الواقعہ۵۱۔۵۶)
’’انھیں مسلسل پیاس لگے گی… یعنی تونس کی بیماری…اور وہ گرم گرم پانی پینے پر مجبور ہوں گے۔‘‘
حذیفہ نے جھرجھری لی۔
’’جن لوگوں نے اپنی زندگی میں اللہ کو خوش کرنے والے کام کیے وہ لوگ جنت میں خوب مزے سے رہیں گے اور اللہ ان کی مہمان نوازی کریں گے… بالکل اسی طرح اہل جہنم کی میزبانی بھی زقوم (تھور) کے درخت اور کھولتے پانی سے ہوگی۔‘‘صالح نے مزید وضاحت کی۔
’’سورۃ الدخان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کفار ان عذاب سے ڈرنے کے بجائے اس کو مذاق اڑاتے ہیں اور اس میں شک کرتے ہیں، ان کو گھسیٹتے ہوئے جہنم کے درمیان پہنچایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ اب اس گرم پانی کو چکھتے جائو اور زقوم (تھوہر) کے درخت کا مزہ لیتے جائو۔‘‘
’’اے اللہ ہمیں جہنم کے شر سے بچا اور جنت میں داخل فرما اور ہمیں اپنے فرماں بردار لوگوں میں شامل فرما۔‘‘ حذیفہ نے نم آنکھوں کے ساتھ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’آمین۔‘‘ صالح اور عمر نے بلند آواز سے جواب دیا۔
حذیفہ نے اپنے ہاتھ نیچے کیے تو سامنے نخلستان شروع ہوچکا تھا۔ باتوں کے دوران انھیں مسافت کا پتا ہی نہیں چلا اور وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے۔

٭…٭