سید امتیاز علی تاج کا رسالہ

پھول

اعظم طارق کوہستانی

بچوں کا پھول ایک ہفتہ وار اخبار تھا جس میں علمی وادبی مضامین، کہانیاں، نظمیں، ڈرامے، لطائف وغیرہ شائع ہوتے تھے۔ رسالہ پھول پورے اَڑتالیس برس یعنی ۱۹۰۹ء سے لے کر ۱۹۵۷ء تک جاری رہا۔
اَنارکلی جیسے ڈرامے کے تخلیق کا ر ’سید امتیاز علی تاج ‘کے والد محترم ’سید ممتاز علی‘ نے ۳ ۱؍اکتوبر ۱۹۰۹ء کو پھول کا اجرا کیا۔ اس کی پہلی مدیرہ بنت نذرالبا قر تھیں۔ پھول کی مختصر تاریخ بیان کر تے ہوئے غلام عباس اپنی مرتب کردہ کتاب پھول میں رقم طراز ہیں :

سید امتیاز علی کی اہلیہ محمدی بیگم نے بچوں کے لیے اخبار نکالنے کا ارادہ کیا۔ اس ارادے کی وجہ یہ تھی کہ امتیاز علی تاج جب آٹھ برس کے تھے تو اُنھیں کہانیاں سننے کا بے حد شوق تھا۔ محمدی بیگم نے سوچا کہ ان کہانیوں کو اگر چھاپا جائے تو بہت سارے بچوں اور ان کی امّائوں کے دل خوش ہوجائیں گے لیکن اس اخبار کو نکالنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا، تہذیب نسواں کی ایک قابل نامہ نگار بنت نذرالباقر نے مرحومہ کی دلی خواہش کو پورا کرنے کا عزم کیا اور ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۹ء کو ہفت روزہ پھول کا پہلا شمارہ نکالا۔ سال بھر نکلنے کے بعد سید ممتاز علی نے خود پھول کی ادارات سنبھال لی۔

پھر جیسے جیسے سید امتیاز علی تاج بڑے ہوئے وہ بھی اس میں اپنے والد محترم کا ہاتھ بٹانے لگے۔ ۱۹۳۵ء میں جب مولوی امتیاز علی کا انتقال ہوا تو ان کے ہونہار فرزند سید امتیاز علی تاج نے پھول کی ادارات سنبھال لی۔
اس رسالے کی مجلس ادارت سے جو لوگ وابستہ رہے بعد میں اُنھوں نے بہت شہرت پائی۔ اس کی ادارت میں مولانا عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، پطرس بخاری، اسماعیل پانی پتی، غلام عباس،بشیر جالندھری، صوفی تبسم، احمد ندیم قاسمی، حفیظ ہوشیار پوری، ہری چند اختر، شوکت تھانوی، امتیاز علی تاج اور حجاب امتیاز علی شامل رہے۔ جبکہ مشہور لکھنے والوں میں خواجہ حسن نظامی، اختر شیرانی، حامد حسن قادری راجندرسنگھ بیدی، مجید لاہوری، قراۃالعین حیدر، حامد اللہ افسر، قیوم نظر اور سراج نظامی جیسے لوگ شامل تھے۔پھول ایک اخبار نہیں بلکہ ادارے کی طرح وطن کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے لیے برسرپیکار رہا، ان کے اخلاق سنوارنے اور اَدب کا ذوق پیدا کرنے کے لیے اس نے نمایاں کارنامے سر انجام دیے۔ خصوصاً زبان وبیان، تحریروں میں لفظوں کا چنائو بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا تھا، خود سید ممتاز علی نے اس کے مضمون نگاروں کو ہدایات جاری کی تھیں جوکہ پھول ہی میں شائع ہوئیں تھیں۔ ان ہدایات میں اُنھوںنے لکھنے والوں سے مشکل الفاظ اور خیالات اور مبالغے کے ساتھ لکھنے سے منع کیا اور اس طرح کی زبان سے بیزاری ظا ہر کی جس میں خواہ مخواہ مشکل الفاظ کو استعمال کر کے رعب جمایا جاتا تھا۔
۴۸سال تک مسلسل نکلنے کے بعد ۱۹۵۷ء میں نا مساعد حالات کے سبب یہ رسالہ بند ہوگیا۔ تقریباً ۲۳ برس بعد نوائے وقت نے ستمبر ۱۹۹۰ء میں پھول کا دوبارہ آغاز کیا۔ چیف ایڈیٹر مجید نظامی اور وحید قیصر کی زیر نگرانی میں ایڈ یٹر اختر عباس اور اسسٹنٹ ایڈیٹر نعیم احمد بلوچ نے اس رسالے کو ایک نئی روح بخشی اور بہت جلد اس کا شمار بڑے پرچوں میں ہونے لگا۔ ۱۳سال اس رسالے سے وابستہ ہونے کے بعد اختر عباس بلاآخر پھول کو چھوڑ گئے۔ یہ رسالہ اگرچہ اب بھی شعیب مرزا کی ادارت میں نوائے وقت کے تحت نکل رہا ہے لیکن اس کے موضوعات سے لے کر مواد کے تنوع پر توجہ کی ضرورت ہے۔

حوالہ جات:
۱۔ کھوکھر، افتخار،محمد، ڈاکٹر،۱۹۹۷ء، بچوں کے رسائل کا تجزیاتی مطالعہ، مشمولہ: ’پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس سال‘،شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد
۲۔ فوق، محمد الدین،۲۰۱۸ء، اخبار نویسوں کے حالات، مرتب: ڈاکٹر طاہر مسعود،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی
۳۔ اریب، اسد، ڈاکٹر، ۱۹۸۲ء، بچوں کا ادب، کاروانِ ادب ملتان، لاہور
۴۔ تہذیب نسواں،جنوری ۱۹۴۳ء،جلد ۴۶،دفتر پھول، ریلوے روڈ لاہور
۵۔ عباس، غلام،اگست ۲۰۱۸ء، پھول، فضلی سنز، کراچی
۶۔ محمود الرحمن، ۱۹۷۰ء، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہائوس لمیٹڈ، کراچی
۷۔ پھول، جولائی ۲۰۱۹ء، ادارہ نوائے وقت، لاہور