بونگا طاہر

اعظم طارق کوہستانی

سات سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے کہانی

 

یہ سردیوں کے دن تھے۔ طاہر گھر میں بیٹھا خیالی پلاؤ پکا رہا تھا، کمرے میں آگ روشن تھی،جس کی وجہ سے اُسے سردی بہت کم لگ رہی تھی۔
ارے ہم نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ طاہر کہاں کا رہنے والا تھا؟
آپ نے ’سوات‘ کا نام سنا ہوگا، اس سوات کے ایک گائوں میں طاہر اپنے اَمّی اَبّو کے ساتھ رہتا تھا۔
طاہر کو سب لوگ ’بونگا‘ کہا کرتے تھے۔ بونگا کا مطلب جسے کچھ نہ آتا ہو۔ نکما اور نالائق بھی کہ سکتے ہیں لیکن آج کے دن ایک عجیب بات ہوئی، جسے سن کر آپ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کیا واقعی طاہر نالائق بچہ تھا۔ چلیے آپ کو اس اہم دن کی کہانی سناتے ہیں۔
طاہر کمرے میں بیٹھا خیالی پلائو پکار ہا تھا اسے اچانک کسی کے چیخنے کی آواز سنائی دی۔
پہلے تو طاہر نے سوچاکہ شاید اس کے کان بج رہے ہیں لیکن جب اسے کسی عورت کے چیخنے کی آواز آئی تو وہ باہر نکلا۔ اس نے گرم کوٹ پہن رکھا تھا۔ طاہر نے اپنے ہاتھ میں ٹارچ بھی لے لی تاکہ رات کے اندھیرے میں دیکھ سکے۔ اس کے امی ابو اپنے کمرے میں تھے۔ اُنھیں طاہر کے باہر جانے کا پتا نہیں چلا۔
باہر نکل کر طاہر نے دیکھا کہ دور ایک گاڑی رُکی ہوئی ہے۔طاہر مزید اُن کے قریب گیا۔ گاڑی کے اُوپر ایک درخت گراہوا تھا۔ گاڑی میں ایک آدمی اس کی بیوی اور دوبچے تھے۔ آدمی کے ہاتھ پر چوٹ لگی تھی اور اس سے خون بہہ رہا تھا جبکہ خاتون اور دونوں بچے محفوظ تھے۔
’’ارے آپ کے تو ہاتھ پر چوٹ لگی ہے، بہت زیادہ خون نکل رہا ہے۔‘‘
طاہر نے آدمی کے ہاتھ کو دیکھا۔’’مجھے کچھ کرنا ہوگا‘‘۔
طاہر بھاگتاہوا گھر واپس آیا۔ اس نے اپنا فرسٹ ایڈبکس اُٹھایا جواس کے ابو کچھ دن پہلے ہی لائے تھے۔ طاہر کے اسکول میں بچوں کو سکھایا گیا تھا کہ وہ دوسروں کی مدد کیسے کریں۔ پرنسپل نے تاکید کی تھی کہ ہر بچے کے پاس فرسٹ ایڈ بکس موجود ہو۔ سوات میں دور دور سے سیاح آتے ہیں اور وہاں حادثات ہوتے رہتے ہیں، اس لیے وہاں کے بچوں کو تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ مشکل وقت میں لوگوں کے کام آسکیں۔
طاہر نے گھر میں رکھا ہوا ایک رَسہ بھی اُٹھالیا۔ باہر بہت زیادہ سردی تھی لیکن طاہر کو اب سردی کی پروا کہاں تھی۔ اس نے کوٹ کے اُوپر مَفلر بھی لے لیا تاکہ سردی کم لگے اور وہ بیمار نہ ہوجائے۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر اپنا بکس کھولا۔ اس میں سے دوا اور پٹی نکالی۔ اس آدمی کے ہاتھ کا زخم صاف کیا۔ دوا لگائی اور پٹی سے ہاتھ کَس کر باندھ دیا۔ وہ عورت حیرت سے طاہر کو دیکھ رہی تھی۔ جو کسی ڈاکٹر کی طرح اپنے کام میں مصروف تھا۔ اب طاہر نے دوسرا کام یہ کیا کہ درخت سے رَسے کو باندھا، رَسے کو ان سب نے مل کراس انداز سے کھینچا کہ درخت گاڑی سے ہٹ گیا، گاڑی خراب ہوچکی تھی لیکن اس کا اِنجن کام کر رہا تھا۔ اُنھوں نے گاڑی کی مدد سے درخت کو راستے سے کھینچ کر ہٹادیا تاکہ اندھیرے میں کوئی اور حادثہ پیش نہ آجائے۔ طاہر نے ان لوگوں سے کہا کہ وہ ان کے گھر چلیں لیکن اُنھیں جلدی واپس جانا تھا۔ انھوں نے طاہر کا شکریہ اداکیا۔
’’تم نے ہم پر احسان کیا ننھے لڑکے! تم بہت بہادر ہو اور دوسروں کا خیال رکھنے والے بھی۔‘‘ آدمی طاہر سے بہت متاثر نظر آیا تھا۔
’’ تم چھوٹے سے بچے ہو، تمھاری عمر کے بچے آرام کو ترجیح دیتے ،میں تمھیں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔‘‘ عورت نے طاہر کا شکریہ اداکیا۔
طاہر ان کی دعائیں لیتے ہوئے بہت خوش تھا۔ آدمی نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ گاڑی چلنے لگی تھی کہ طاہر نے گاڑی کے قریب جاکر عورت سے پوچھا۔
’’کیا میں بونگا لگتا ہوں؟ میرے دوست مجھے بونگا کہہ کر بلاتے ہیں۔‘‘
ارے تمھیں جس نے بھی کہا غلط کہا۔تم نے تو اس سخت سردی میں ہماری مدد کی۔ یہ کام ثابت کر تا ہے کہ تم ایک محنتی بچے ہو جو لوگ ایسا کہتے ہیں ان کی بات ایک کان سے سنو اور ایک کان سے نکال دو اور لوگوں کی مدد کرتے رہو۔ لوگ اگر ہیرے کو بُرا بھلا کہیں تو وہ بھدّے پتھر میں تبدیل نہیں ہوتا۔ وہ اسی طرح ہیرا بن کر چمکتا ہے۔‘‘ اُس عورت نے باقار انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔’’تم تو ہیرا ہو ہیرا……چمکتے رہو۔‘‘
طاہر کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ وہ گھر آگیا۔ اس نے ساری چیزیں اپنی جگہ رکھ دیں اور صوفے پر بیٹھ گیا۔ باہر ہلکی ہلکی برف باری ہورہی تھی۔ کمرے میںموجود کسی مصور کی بنائی ہوئی بارہ سنگھے کی تصویر کے چہرے پر ایک عجیب سی دلکشی آگئی تھی، جیسے وہ طاہر کے اس کام سے بہت زیادہ خوش ہوا ہو۔
کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ طاہر بونگا ہے؟

٭…٭