ٹارزن کی واپسی

اعظم طارق کوہستانی

سات سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے کہانی

’’ہٹو…جنگل کے جانورو! ٹارزن آرہا ہے‘‘
ٹارزن نے زور سے چیخ ماری اور درخت کی ایک لمبی سے بیل پکڑ کر ہوا میں اڑنے کی کوشش کی۔
یا سر کا وزن زیادہ تھا، اس لیے درخت کی بیل ایک جھٹکے سے ٹوٹ گئی۔ یاسر ایک دھماکے سے زمین پر آگرا۔اس کے بعد کیا ہوا یہ جاننے سے پہلے ہم آپ کو یاسر کے بارے میں بتاتے ہیں۔
یاسر کو ٹارزن بننے کا بے حد شوق تھا۔ اس نے ٹارزن کی ساری کہانیاں پڑھ لی تھیں۔ ٹارزن پر بنے ہوئے سارے کارٹون بھی وہ دیکھ چکا تھا۔ وہ ہر وقت سوچتا رہتا کہ کاش وہ جنگل میں ہوتا جہاں وہ ٹارزن بننے کا اپنا خواب پورا کر لیتا۔
یاسر کو اس کے دوستوں اور امی ابو نے سمجھایا کہ ٹارزن حقیقت میں نہیں ہے لیکن یاسر کے دماغ میں ہر وقت ٹارزن گھومتا رہتا، حتیٰ کہ اسے خواب میں بھی ٹارزن دکھائی دینے لگا تھا۔
ایک دن تو حد ہی ہوگئی۔ ان کے اسکول میں استاد نے ایک دفعہ سب بچوں سے پوچھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں۔ سب بچوں نے مختلف جواب دیے لیکن سب سے عجیب بات یاسر نے کی جس پر سب کھکھلا کر ہنس پڑے ۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ یاسر نے کیا کیا ہوگا؟
جی… یاسر نے کہا تھا کہ وہ ٹارزن بننا چاہتا ہے۔
بلاآخر ایک دن یاسر کو ٹارزن بننے کا موقع مل ہی گیا۔ وہ اپنے اسکول کے بچوں کے ساتھ اسکائوٹس کی ٹریننگ لینے گیا۔یہ ٹریننگ پاکستان کے چھانگا مانگا جنگل میں ہورہی تھی جس میں بچوں کو سکھانا تھا کہ ٹریننگ کر کے انھوں نے لوگوں کے کام آنا ہے اور ان کی مدد کرنی ہے۔
کیمپ کا دوسرا دن تھا۔ یاسر چپکے سے اٹھا ۔ اس نے اپنا مخصوص ٹارزن والا لباس نکالا۔ نقلی بال لگائے، اب وہ مکمل ٹارزن لگ رہا تھا۔
پھر یاسر نے ٹارزن بننے کی کوشش کی اور زمین پر آگرا۔ یاسر کے کمر میں سخت چوٹ لگی۔
’’اف ٹارزن بننا تو واقعی مشکل کام ہے۔‘‘ یاسر نے سوچا۔
اچانک یاسر کو لگا کہ کوئی اس طرف آرہا ہے۔
وہ معاذ اور شایان تھے۔ انھوں نے یاسر کو دیکھا تو دونوں اچھل پڑے۔
’’ارے شایان بھاگو،یہاں ٹارزن ہے۔‘‘
دونوں بد حواسی میںبھاگتے ہوئے کیمپ پہنچے۔ دونوں نے سب کو بتایا کہ انھوں نے سچ مچ ٹارزن کو دیکھا ہے ۔ کسی نے بھی ان دونوں کی بات کا یقین نہیں کیا لیکن جب تک کیمپ وہاں لگا رہا۔ بچوں کو اکثر ٹارزن دکھائی دیتا رہا۔
یاسر کو تو ٹارزن کی حقیقت سب معلوم تھی لیکن اسے اس حرکت میں مزہ آنے لگا۔ کسی نے بھی اسے نہیں پہچانا تھا۔ جو لو گ یاسر کا مزاق اڑایا کرتے تھے کہ ٹارزن نہیں ہوتا وہ اب یاسر سے آنکھیں نہیں ملا پارہے تھے۔
بہرحال کیمپ ختم ہوا۔ یاسر نے اس کیمپ میں جہاں ایک شرارت کی وہاں اس نے یہ بھی سیکھا کہ ٹارزن بننا اہم نہیں بلکہ ایک اچھا انسان بننا اہم ہے۔ لوگوں کی خدمت کے لیے ضروری نہیں کہ آپ ٹارزن ہوں۔ ایک چھوٹا بچہ ہو یا ایک بڑا آدمی لوگوں کی مشکل میں کام آسکتا ہے۔
یاسر نے اب ٹارزن کے تذکرے چھوڑ دیے ہیں لیکن اس کے دوست اب زور شور سے ٹارزن کا ذکر کرتے ہیں ۔ یاسر نے بھی انھیں کبھی نہیں بتایا کہ ٹارزن کوئی اور نہیں وہ خود تھا۔اگر وہ بتا بھی دیتا تو کوئی اس کی بات کا یقین نہیں کرتا۔اب یہ بات یاسر کو پتا ہے یا پھر آپ کو!
اب آپ بھی کسی کوکبھی مت بتائیے گا۔

٭…٭