اُردو زبان میں بچوں کے ادب پر بیسویں صدی میں تاریخی وتہذیبی اعتبار سے کئی بلند پایہ کام ہوئے ہیں۔کتابیں لکھی گئیں، رسائل کا اجرا کیا گیا۔ بڑے ادیبوں نے ادب اطفال میں اپنا حصہ ملا کر اس شعبے کو ترقی کی نئی منزلیں عطا کیں۔
اس سے قبل کا منظر نامہ کچھ یوں تھا کہ پورا ہندوستان 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ایک نئی کروٹ لے رہا تھا، اس نئی کروٹ کا اثر جہاں ادب کے دیگرگوشوں پر پڑا وہیں بچوں کا ادب بھی اس سے متاثر ہوا۔ بچوں کے لیے ایسی نظمیں اور کہانیاں لکھی جانے لگیں ، جن میں اُنھیں نیکی پر اُبھارا جاتا اور بُرے کاموں سے بچنے کی ترغیب دی جاتی۔ ایسوپ کی حکایتوں کی طرز پر بے شمار حکایتیں اختراع کی گئیں اور اِن حکایتوں اور کہانیوں کے آخر میں باقاعدہ نتیجہ بھی لکھا جانے لگا۔ اُس دور میں بڑوں کے لیے لکھی گئیں قصے کہانیوں اور داستانوں کو بچوں کے لیے سادہ ، سہل زبان میں مختصراً بھی الگ سے لکھا گیا۔ جیسے داستان امیر حمزہ، کلیلہ ودمنہ، نوطرز مرصع، فسانہ عجائب، طلسم حیرت، رستم وسہراب، الف لیلیٰ، الہٰ دین اور چراغ، علی بابا چالیس چور، باغ وبہار، بوتل کا جن وغیرہ قسم کی کہانیوں کو بچوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ آسان اور سلیس زبان میں لکھا گیا1۔
ان مافوق الفطرت قوت رکھنے والے کرداروں والی افسانوی طرز کی کہانیوں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بچوں کے لیے لکھنے والوں نے اسی طرز کے نت نئے کردارتخلیق کرنا شروع کردیے۔اُن دنوں جن ، پری، دیو اور جادوگروں کو موضوع بنا کر بچوں کے لیے بہت سی کہانیاں لکھی گئیں۔ ظالم جادوگروں اوربہادر شہزادوں کی کشمکش پر مبنی اس طلسماتی دنیا سے بچے ایک طویل عرصے تک محظوظ ہوتے رہے۔ اس زمانے میں بچوں کے رسائل و جرائد میں غیر ملکی تراجم کے حصے میں بھی ایسی ہی کہانیوں کا انتخاب کیا جانے لگا جو کہانیوں کی اسی قبیل سے تعلق رکھتی تھیں، مثلاًڈنمارک کے ہنیز کر سچین انڈرسن (Hans Christian Andersen) کی کہانیوں کوکئی ادیبوں نے اپنے اپنے انداز سے ترجمہ یا تلخیص کیا ہے۔ سنڈریلا اور خوابیدہ شہزادی تو آج بھی بچوں میں مقبول ہے2۔
بچوں کے ادیبوں نے نظمیں، اصلاحی نثر پارے، کلاسیکل داستانوں اور قصوں کی تلخیص، تخیّلی داستانیں، حکایتیں اور کہانیاں، شکاریات کے موضوع پر قصے کہانی، تراجم جیسے موضوعات کا احاطہ کیا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ’’منشی محبوب عالم‘‘ کی ادبی خدمات نے ادب پر بڑے گہرے اور مثبت اثرات مرتب کیے۔ اپنے پیسہ اخبار، کلیدِ امتحان، ہمت، زمیندار وباغبان وبیطار، اخبار عام، شریف بی بیاں، انتخاب لاجواب، دی سن The sun کا اجرا کر کے وہ جنوبی ایشیا میں اُردو صحافت کے حوالے سے ایک سنہری دور کا آغاز کر چکے تھے۔ بعد ازاں بچوں کے لیے سب سے پہلا باقاعدہ رسالہ بچوں کا اخبار مئی ۱۹۰۲ء میں اُنھوں نے جاری کر کے بچوں کے ادب کو ایک نئی جہت دی3۔
بچوں کا اخبار کے بعد بچوں کے لیے رسائل کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ سید ممتاز علی کا ۱۹۰۹ء میں شروع کردہ ہفت روزہ پھول4، حامد حسن قادری کا ۱۵ مارچ ۱۹۱۸ء کو اجرا کردہ سعید5، ابو الکلام آزاد کی ایما پر ۱۹۲۲ء میں غنچہ کی اشاعت6اورمکتبہ جامعہ ملیہ کا ۱۹۲۶ء کو باقاعدہ شائع ہونے والے ماہنامہ پیام تعلیم نے بچوں کے ادب کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا7۔ کچھ برسوں بعد قیام ِپاکستان کے وقت یہ سب بچوں کے ادب کا ورثہ کہلایا۔
قیامِ پاکستان کے بعد بچوں کا ادب مزید مستحکم ہوا۔ایسا بالکل نہیں ہوا کہ پاکستان بننے کے بعد بچوں کے اَدب نے اچانک کوئی کروٹ لی ہو، بلکہ اس میں بتدریج بہتری آتی گئی۔ اسے دوبارہ انھیں خطوط پر استوار کیا گیاجو ہمارے اہل قلم حضرات نے بچوں کا اَدب تخلیق کرتے ہوئے قائم کیا تھا، ان روایات کی روشنی میں پاکستان کے اہل قلم نے ادب ِ اطفال میں ایک سلیقے اور قرینے کے ساتھ نہ صرف اضافہ کیا،بلکہ اسے ترقی دیتے ہوئے عروج بخشا۔
قیام پاکستان کے بعد، چند اماموں، اطفال ، جگنو ، بچوں کا باغ، بچوں کی باجی، ٹوٹ بٹوٹ، پیغام، بچوں کا رسالہ، کوثر، ذہین، چاندتارا، شاہین، آنکھ مچولی، نونہال، ساتھی، پھول،انوکھی کہانیاں، بزم قرآن، کلیاں، چندا، کھیل کھیل میں سمیت بچوں کے383 رسائل شائع ہوئے، جن میں کچھ اب بھی شائع ہورہے ہیں جب کہ ایک بڑی تعداد اُن رسائل کی ہے جو حالات کی نذر ہوگئے8۔
قیام پاکستان کے بعد ہمارے اُدبا نے بچوں کو اس قوم کا مستقبل سمجھتے ہوئے ایسا ادب بھی تخلیق کرنا شروع کیا جسے ہم خالصتاً پاکستانی ادب کہہ سکتے ہیں۔ وطن سے محبت ، وفاداری، اور اس کے لیے جاں نثاری کا جذبہ کتابوں کے ذریعے بچوں میں پروان چڑھایا گیا۔رسائل میں پاکستان کے موضوع پر ادب تخلیق کرنا قوم کی ضرورت تھی کہ بچوں کو اِس نئے ملک سے روشناس کروایا جائے، اس لیے رسائل میں حب الوطنی کے موضوع پر کہانیوں، نظموں اور مضامین کی اشاعت کے ذریعے پاکستان سے محبت کی تلقین کی گئی اورپاکستان کے جغرافیے کے حوالے سے بھی بچوں کو روشناس کرایا گیا۔
بچوں کے ادیبوں نے بچوں کے لیے لکھتے ہوئے ادب کی کم وبیش تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور کوئی صنف ایسی نہ چھوڑی جس میں اُنھوں نے اچھا ادب تخلیق نہ کیا ہو مگر ان کی زیادہ توجہ ناول اورمختصر کہانیاں لکھنے پر رہی۔ دنیا بھر میں بچوں کے لیے لکھا جانے والا زیادہ تر ادب اِنھیں دو اصناف پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد کہانیاں پڑھنا پسند کرتی ہے۔ ان کہانیوں اور ناولوں میںبہت زیادہ تنوع بھی نظر آتا ہے، ان میں جنوں ، بھوتوں ، پریوں، دیووں، جادوگروں کی کہانیوں سمیت حیرت انگیز واقعات پر مبنی کہانیاں، سراغ رسانی کی کہانیاں، جنگلوںصحرائوں کی کہانیاں، شہروں کی کہانیاں، کلاسیکل کرداروں کی کہانیاں، سائنس فکشن اور سائنسی مہماتی کہانیوںکے موضوعات شامل ہیں۔
بچوں کے لیے مزاحیہ ادب بھی لکھا گیا لیکن اس کی تعداد بہت کم ہے۔ چچا چھکن کو امتیاز علی تاج نے انگریزی کے مشہور ادیب Jerome K. Jeromeسے متاثر ہوکر لکھا9۔ بعد ازاں اُردو میں اس طرح کے چچا ئوں اور ماموؤں پر کئی کردار بنائے گئے۔ ذکیہ بلگرامی نے چچا بھلکڑ10، ادریس قریشی نے چچا حیرت11، قاسم بن نظر نے چچا فلسفی12، فہیم عالم نے چچا تیزگام،13جب کہ جاوید بسام نے چچا ہادیپر طبع آزمائی کی14۔
بچوں پر رسائل کے اثرات:
معاشرے میں بچے ہوں یا بڑے کہانیوں کے اثر سے خالی نہیں ہوتے، کہانیاںزندگی کو ترتیب دینے میں معاون ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ کہانیاں ہی زندگی ہے، کسی کی زندگی خواہ وہ بچوں کی ہو یا بڑوں کی کہانیاں کیا اثرات مرتب کرتی ہیں یہ عمل خود ایک وسیع مطالعے کا متقاضی ہے۔ نظریاتی، فکری اور سماجی حوالوں سے اگر ہم بچوں کے رسائل کا معاشرے پر اثرات کا مطالعہ کریں تو اس کی کئی جہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں، ان جہتوں کو چند بنیادی موضوعات کے حوالے سے تقسیم کرکے اس کے اثرات کو جانچا جاسکتا ہے۔
معاشرے اور اس میں بسنے والے افراد کی اخلاقی، سماجی، ثقافتی، سیاسی اور مذہبی روایات کو اُجاگر کرنے میں ادب کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں بچوں کے اَدب کو ترقی یافتہ ممالک نے سائنسی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ درسی کتابوں سے لے کر فکشن کی کتابوں تک میں ہمیں سائنسی اُصول کار فرما نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کے لیے جو کہانیاں لکھی جاتی ہیں وہ بچوں پر کس قسم کے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان کے نظریاتی، ثقافتی اور ادبی پہلوئوں پر غور وفکر کیا جاتا ہے کہ معاشرہ ایک اچھے ادب کے ساتھ بچوں پر مثبت اثرات ڈال کر اُنھیں کار آمد انسان بنائے۔
کوئی بھی معاشرہ اچھے ادب کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا، اس لیے ضروری ہے کہ معاشرتی طور پر ایسی سرگرمیوں کو پروان چڑھایا جاسکے، جو بچوں میں اخلاقی،مذہبی، علمی اور عملی سرگرمیوں کو مہمیز دے اور انھیں کار آمد بنائے۔
جو بچے مطالعے کے عادی ہوتے ہیں اور وہ مطالعہ ان کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس حوالے سے مختلف طویل المدتی منصوبوں، سروے اور تحقیقی کاموں کو بنیاد بنایا جاتا ہے، ایسی ہی محققانہ کاموں کی ضرورت اُردو زبان میں شائع ہونے والے رسائل کے حوالے سے بھی پائی جاتی ہے۔ تاکہ اس شعبے کے ثقافتی، نظریاتی اور اخلاقی ونفسیاتی پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسا ادب تخلیق کیا جاسکے جو مواد کے لحاظ سے متنوع ہونے کے علاوہ اس کے تخلیقی جہت پر بھی پورا اُترتا ہو۔
بچوں کا ادب اتنا ہمہ گیر ہے کہ بچے کی شخصیت پر کئی طرح سے اس کے اثرات پڑتے ہیں، ادب کی یہ ہمہ گیریت رسائل کی مرہون منت ہے۔بچوں کا ایک رسالہ مہینے بھر میں ایک شمارے میں مختلف النوع چیزیں شائع کرکے بچوں کے لیے لُطف کا سامان کرتا ہے، بچوں کے ادب کا تنوع رسائل میں بھرپور طریقے سے نظر آتا ہے۔ سفرنامے، کہانیاں، مضامین، سرگرمیاں، نظمیں اور ان میں چھپے سیکڑوں موضوعات مطالعے کے لیے نہ صرف ایک وسیع میدان فراہم کرتے ہیںبلکہ ادب کا یہ تنوع بچے کی شخصیت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
ان اثرات کو چار بنیادی نکات سے سمجھا جاسکتا ہے۔
ث بچوں کا اَدب بچے پر اخلاقی اثر ڈالتا ہے کہ وہ سچ بولے۔ امانت ودیانت کا مظاہرہ کرے۔ بُرے کاموں سے اجتناب برتے۔
ث قومی اثرات کے تحت بچوں میں جذبہ حب الوطنی پیدا کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ملک ،مذہب، معاشرے کے وفادار رہیں۔ ان کی فلاح وبہود کا خیال رکھیں اور کوئی ایسا کام نہ کردیں جس سے ملک کو نقصان اور دشمن کو فائدہ ہو۔
ث مذہبی اثرات کے تحت بچوں میں انبیا علیہ السلام، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور دیگر معتبر اور قابل احترام شخصیتوں سے متعارف کر وایا جاتا ہے۔ ان کے قابل تقلید کاموں کے نقش قدم پر چلنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
ث زبان کے حوالے سے بھی بچے کی شخصیت پر اَثر پڑتا ہے۔ بچوں کا اَدب بچوں کی زبان نکھارتا ہے، محاورات پر دسترس، نئے الفاظ سے روشناس کروانا، جملوں کی تزئین وآرائش، ضرب الامثال، کہاوتیں، کہانی لکھنے اور کہنے کا سلیقہ، قوت تخلیہ کو لفظوں کے ذریعے پروان چڑھاناتاکہ وہ اپنا مافی الضمیر بہتر اور عمدہ طریقے سے بیان کرنے کے قابل ہوسکیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ بچوں کا ادب کئی دیگر زاویوں سے بھی اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ضروری امر یہ ہے کہ ملک میں خواندگی کی شرح بڑھے۔ پڑھنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہواور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے بچوں کے مطالعے میں جہاں کمی محسوس ہو۔ وہاں اس پر خصوصی توجہ دی جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسا کون سا پیرا میٹر ہے جس کے ذریعے ہم یہ پتا چلاسکیں کہ کسی تحریر،رسالے کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ کیا اس حوالے سے سروے موجود ہیں؟ یا پھر حکومتی یا نجی سطح پر کسی ادارے نے اس چیز کا تحقیقی نوعیت سے جائزہ لیا ہے؟ باوجود تلاش وبسیار کے اس موضوع پر سوائے ایک کوشش کے تاثراتی تحریریں اور ذاتی تجربات تو موجود ہیں لیکن سائنٹفک انداز میں اس کا جائزہ ندارد ہے، اس ایک کوشش کا آغاز اسلام آباد میں کیا گیا۔دعوۃ اکیڈمی کے شعبہ بچوں کا ادب نے سائنسی بنیادوں پر ڈاکٹر افتخار کھوکھر کی نگرانی میں رسائل کے بھرپور قسم کے جائزے لیےمگر جائزوں کا یہ تسلسل جاری نہ رہ سکا۔۔ جب کہ دوسری جانب انگریزی لٹریچر میں اس چیز کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا ہے کہ بچوں کے لیے جو بھی لکھا جارہا ہے ، اس کو تمام زاویوں سے دیکھنا اور پرکھنا کہ وہ معاشرے پر مجموعی طور پر کس قسم کا اثر ڈالتا ہے۔
بچوں کے اَدب پر تحقیق کے حوالے سے بین الاقوامی ادارہInternational Research in Children’s Literature میں ایشیا، افریقا، یورپ اور امریکا میں موجود بچوں کے ادب کا جائزہ سائنسی بنیادوں پر لینے کا اہتمام کیا جاتا ہے15۔ اسی طرح تعلیم، اخلاق پر اثر انداز ہونے والے بچوں کے ادب کو بھی وسیع پیمانے پر پرکھا گیا ہے۔
اس سے قبل اس بات کا سرسری تذکرہ آچکا ہے کہ بچوں کے رسائل کی تاریخ میں ہمیں نقشِ اوّل کے طور پر منشی محبوب عالم کا رسالہ بچوں کا اخبار نظر آتا ہے، جس نے برعظیم میں اُردو کو نصابی ضرورتوں سے ہٹا کر شوقی اور ذوقی نوعیت کی صورت فراہم کی۔یہ رسالہ کم وبیش بارہ (۱۲) برس تک اُردو میں بچوں کے حوالے سے مختلف نوع کی کہانیاں، نظمیں، مضامین اور سرگرمیاں شائع کرتا رہا۔
منشی محبوب عالم کے اس رسالے کے تتبع میں مزید رسائل نکلے جنھوں نے بعد ازاں نت نئے موضوعات، رنگین اسکیچز، علمی اور معلوماتی معمّے، مختلف نوع کے مضامین اور نظموں میں مختلف تجربوں کے ذریعے ادب اطفال کو مزید توانا کیا۔اس دوران ۱۹۰۲ء سے لے کر فروری ۲۰۲۲ء تک اُردو زبان میں بچوں کے ۳۸۳ رسائل کم وبیش شائع ہوچکے ہیں۔
بچوں کے رسائل نے بچوں کے ادب پر ہمہ گیر اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ رسائل دیگر معاصرین رسائل کے لیے بطور مثال تھے۔ ان رسائل کی تاریخ کا تذکرہ، مختلف بکھرے ہوئے مضامین میں مختصراً ملتا ہے۔
بچوں کا ادب لوریوں سے شروع ہو کر مہم جوئی پر مبنی قصے کہانیوں سے ہوتا ہوا علمی اور معلوماتی مضامین سے اُردو ادب کو تنوع بخشتا ہے۔ ان رسائل میں بچوں کو لبھانے، تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی تعلیم وتربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہانیاں، مضامین اور نظمیں شائع کی گئیں۔
بچوں کے رسائل نے بچوں کی تفریح کے ساتھ تربیت کا سامان بھی فراہم کیا اور ان کی ذہنی تربیت کرتے ہوئے اخلاقی، مذہبی اور قومی حوالوں سے ان پر اثرات بھی مرتب کیے۔ بچوں کے لیے شائع ہونے والے رسائل اور کتابیں بچوں کے اخلاق وکردار کو کس طرح متاثر کر رہے ہیں؟ اس حوالے سے تفصیلی جائزے اور تبصروں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ حکومتی یا نجی سطح پر اس طرح کا جائزہ سائنسی بنیادوں پر لینے کا فقدان پایا جاتا ہے۔
اس لیے اس موقع پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ادبِ اطفال کے کون سے گوشے بچوں کے اخلاق وکردار پر اثر انداز ہورہے ہیں اور زود نویسی کے باعث وہ کون سی کہانیاں ہیں جنھیں پڑھ کر بچوں میں بجائے اچھی عادتوں کے خراب عادتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔
اسی طرح رسائل میں شائع ہونے والا ہمارا مذہبی لٹریچر بچوں کی دینی ضرورت کو کس حد تک پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کہیں یہ دینی ادب نا مکمل حوالوں یا غلط اور موضوع واقعات کو فروغ دے کر بچوں کو غلط سلط معلومات تو فراہم نہیں کررہا، یہاں یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ حب الوطنی کو اُجاگر کرنے والا ادب کیا ہمارے بچوں کے لیے مناسب اور کافی ہے۔
ان سوالوں میں یہ بھی اضافہ کیجیے کہ بچوں کے رسائل نے بچوں کی زبان وبیان کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ بچوں کی زبان محدود ہوگئی ہے یا رسائل پڑھنے والے بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوا ہے۔ زبا ن وبیان کی جو رنگا رنگی ہم رسائل میں دیکھتے ہیں اس کی اثر پذیری بچوں میں کتنی ہے۔
ادب ِ اطفال کا سرمایہ زیادہ تر مختلف ناشرین اور ان کے سرپرست اداروں کی مرہون منت ہے۔ ناشران کتب نے بچوں کے لیے جو کتب شائع کی ہیں۔ ان کی بچوں میں مقبولیت اور افادیت کیا رہی ہے؟ ناشرین کے ان کے کاموں کا تفصیلاً جائزہ لینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے پچھلے اَدب کے معیار اور مزاج کو دیکھتے ہوئے اس کی ترقی یافتہ شکل اپنے قارئین کے سامنے پیش کریں۔ اس طرح کے جائزے نہ ہونے کی وجہ سے پچھلا سارا اچھا ادب نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے اور نئے لکھنے والے اس میدان میں آکر اوسط درجے کا اَدب تخلیق کرنے لگتے ہیں، حالاں کہ ہمارا ماضی عمدہ ادب سے بھرا پڑا ہے۔
بچوں کے اَدب کی یہ خوش قسمتی رہی کہ اسے ایسے لکھنے والے میسر آئے جنھوں نے اپنی زندگیاں بچوں کے لیے لکھنے لکھانے، کتابیں اور رسائل مرتب کرنے میں لگادیں، اُردو اَدب کے بڑے قد آور ادیبوں نے بچوں کے لیے لکھ کر بچوں کے ادب کو اپنے قلم سے سینچا۔
بڑے ادبا کا تعاون جب تک بچوں کے ادب کو میسر آیا ہمیں اس شعبے میں بچوں کی دل چسپی نظر آئی۔ رسائل بڑی تعداد میں شائع ہوکر قبول عام حاصل کر رہے تھے۔ بچوں کے لیے اچھی اور معیاری کتابیں بڑی تعداد میں شائع ہورہی تھیں۔ بچوں میں لکھنے پڑھنے کے رجحان کے حوالے سے فکرمندی ظاہر ہورہی تھی۔ نیشنل بک فائونڈیشن،نیشنل بک کونسل آف پاکستان، دعوۃ اکیڈمی جیسے ادارے بچوں میں مطالعے کے رجحان کو بڑھانے کے لیے کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے کانفرنسیں، ورکشاپس کا انعقاد کر رہے تھے۔ مجموعی طور پر ملک میں پڑھنے لکھنے کارجحان پیدا ہورہا تھا، اس وقت بچوں کے ادب میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی۔ بڑے ادیبوں اور اداروں نے بچوں کے اَدب میں جب سے دل چسپی لینا ترک کر دی، اس دن سے یہ شعبہ بھی روبہ زوال ہے۔
اچھے اور اعلیٰ ادب کی تخلیق میں سست روی کا عمل جاری ہے، مطالعے کی شدید کمی کے باعث نئے ادیب اپنے محدود مطالعے اور تجربے کی بنا پر جو کہانیاں، نظمیں لکھ رہے ہیں۔ وہ بچوں کی دل چسپی اور ذوق کے لیے کفایت نہیں کرتیں۔ رسائل کی موجودہ صورت کے مطابق بچوں کے اَدب میں معیار اور تعداد کے لحاظ سے کمی در پیش ہے۔ ماضی میں اگر چہ رسائل نے بہت اچھا مواد پیش کیا۔ اچھے اسکیچز بنائے گئے، طباعت میں بہتری لائی گئی لیکن اس کے باوجود ہمیں بہت سی جگہوں پر کمی محسوس ہوتی ہے۔
اس حوالے سے ضروری ہے کہ ہمارے ادیب وشاعروں کوروایتی خیالات اور سطحی مکالموں سے بچنا چاہیے۔ رسائل کو ایسی سلسلہ وار کہانیوں اور سرگرمیوں کو شروع کرنا چاہیے جس میں بچے دل چسپی اور دل جمعی کے ساتھ شرکت کرسکیں۔ بچوں کے لیے بڑے ادیبوں کا لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے، اس سے نہ صرف ادب کا معیار بہتر ہوتا ہے بلکہ نئے لکھنے والوں کو بھی تقلید کرنے کے لیے کچھ سامان میسر آجاتا ہے۔
بچوں کی عمر کا تعین کر کے رسائل کا اجرا کیا جائے۔ دنیا بھر میں اب یہ بات معمول سی بن گئی ہے کہ بچوں کی عمر کے لحاظ سے ادب تخلیق کیا جارہا ہے تاکہ قاری کی ذہنی سطح کے مطابق ایسی چیز پیش کی جائے جسے وہ باآسانی ہضم کرسکے۔
حوالہ وحواشی:
1۔ حسین، انتظار، ۲۰۰۲ء، کلیلہ ودمنہ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ص۲
2۔ کرشن، بال، ستمبر ۲۰۰۰ء، سنڈریلا، مکتبہ جدید، نئی دہلی، ص۵
3۔ بچوں کا اخبار، ماہنامہ، جولائی ۱۹۰۲ء، خادم التعلیم سٹیم پریس، لاہور، ص۲
4۔ محمود الرحمن، ۱۹۷۰ء، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہائوس لمیٹڈ، کراچی،ص ۴۵۶
5۔ _____،ایضاً، ص ۴۵۹
6۔ _____،ایضاً، ص ۴۹۰
7۔ _____،ایضاً، ص ۴۹۲
8۔ کھوکھر، محمد افتخار، ۲۰۱۳ء، روشنی کا سفر، شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد،ص۲۱۷
9۔ عالم، فہیم، 2015، چچا تیز گام، بچوں کا کتاب گھر، لاہور، ص3
10۔ تاج، امتیاز علی، ۲۰۱۳ء، چچا چھکن،سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ص۲۳
11۔ بلگرامی، ذکیہ، ۲۰۰۲ء، چچا بھلکڑ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ص۱۲
12۔ قریشی، محمد ادریس، ۲۰۱۸ء، چچا حیرت، بچوں کا کتاب گھر، لاہور، ص ۲۱
13۔ قاسم بن نظر، ۲۰۰۷ء، چچا فلسفی، مشمولہ: ماہنامہ’ ساتھی‘، کراچی، ص۴۴
14۔ بسام، جاوید، فروری۲۰۱۶، چچا ہادی نے کیا شکار، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، کراچی، ص۲۴
15۔ دیکھیے ویب گاہ:https://www.euppublishing.com/toc/ircl/15/1