آئیے سائنس دان بنیں

محمد فیصل شہزاد

علم حاصل کرنے کے دو درجے ہیں۔ ایک علم کو پڑھ کر سمجھنا۔ دوسرے اپنے علم کو تجرباتی بنیاد پر پرکھنا۔
اور یہ بات مسلم ہے کہ کسی بات کی تفہیم کے لیے اور اس کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے جان لینے سے کہیں بہتر مشاہدہ کرنا اور مشاہدے سے کہیں بہتر تجربہ کر ناہے۔
مثال کے طور پر ایک بچہ اول اول یہ پڑھتا ہے کہ آگ ایک قدرتی مظہر ہے جو نہ ٹھوس ہے اور نہ مائع۔ وہ ایک ایسی شے ہے جو ہر شے کو جلا کر ختم کر دیتی ہے۔بچے کے اِس جان لینے کوعلم الیقین کہتے ہیں۔ یہ جاننے کا سب سے کمتر درجہ ہے۔
اس کے بعد ایک دن بچہ آگ کو دیکھ لیتا ہے۔سرخ سرخ نارنجی شعلے، روشنی اگلتے شعلے اسے بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ جو چیز بھی آگ میں ڈالی جارہی ہے۔ وہ اپنی ماہیت بدل لیتی ہے۔اپنی آنکھوں سے آگ کو دیکھ کر، اُس کے رنگوں کو اور اس میں جلتی چیزوں کو دیکھ کر اسے جو علم ہوا، اسے عین الیقین کہتے ہیں، جو علم الیقین سے یقینا بہت بڑھ کر ہے۔
مگر ابھی دور دورسے یہ دیکھنے والا آگ کی حقیقت سے واقف نہیں ہے۔
جب کسی دن وہ بچہ آگ کے قریب جائے گا۔ اُس کی حدت کو محسوس کرے گا۔ مختلف تجربے کر کے درجہ حرارت کو ماپے گا تو وہ آگ سے معلق بہت ساری باتیں جان لے گا۔ مثلاً وہ جان لے گا کہ آگ کے کتنے قریب آنے پر اس کی حدت فرحت بخش ہوتی ہے اور کتنے قریب ہونے پر یہ سخت تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔
آگ پر مختلف تجربات کر کے،گاہے اپنا ہاتھ جلا کر اسے آگ کے متعلق جو علم عطا ہوتا ہے وہ حق الیقین کہلاتا ہے جو علم کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔جی ہاں! اپنے علم کو تجربات کی کسوٹی پر کس کر دیکھنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ علم درست ہے یا نہیں۔
یہ مسلسل سیکڑوں برسوں کے تجربات ہی ہیں، جن کی بدولت پتھر کے دور کا انسان اپنے ہزاروں برس کے سفر کے بعد آج اُس مقام پر ہے کہ وہ کائنات کی مادی قوتوں پر قابو پا کر محیرالعقول کرشمے دکھا رہا ہے۔
انسان کی یہ مادی ترقیاں تجرباتی سائنس کی ہی بدولت ہیں اوردنیا معترف ہے کہ تجرباتی سائنس کی بنیاد مسلمان سائنس دانوں نے ہی رکھی تھی، المیہ مگر یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے اپنی یہ میراث غیروں کے حوالے کر دی ہے۔ آج کل ہماری درس گاہوں میں علم کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھنا تو بہت دور کی بات ہے، علم سمجھایا بھی نہیں جا رہا، بلکہ محض رٹا دینے کو علم کا حصول سمجھ لیا گیا ہے۔
صرف سائنس کے مضمون کو دیکھ لیجیے تو ہمارے اساتذہ طلبہ کو بس سائنسی قوانین و مساواتیں رٹا دیتے ہیں۔ ان کا پورا زور کتابوں میں درج معلومات کو حرف بہ حرف لیکچر میں دہرانے پر ہوتا ہے ، سو بچے بھی اساتذہ اور والدین کے ڈر سے یا امتحان میں کامیاب ہونے کے لالچ میں اِن معلومات کو رٹ لیتے ہیں تا کہ پرچے حل کر سکیں اور نتیجتاً ڈگری حاصل کر کے کوئی اچھی نوکری پا سکیں۔
ایسی افسوس ناک صورت حال میں سائنس کی تعلیم محض تعلیم برائے ڈگری رہ گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کے ہزاروں طلبہ میں خال خال ہی کوئی ایک طالب علم ایسا ہوتا ہے جو سوچنے والا دماغ رکھتا ہے۔ اپنے علم پر تجربات کا شوق رکھتا ہے اور ہزاروں سال سے بہتے آ رہے علم کے اِس دریا میں کچھ اپنا حصہ ملانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
مسلمانوں کو ایک بار پھر اپنی ہی میراث میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے تجرباتی سائنس میں آگے آنا ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں اپنی تعلیم گاہوں میں طلبہ کے لیے سائنس کو دلچسپ بنانے کے لیے انھیں سائنس تجرباتی انداز میں پڑھانی ہو گی۔تب ہی ہم اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلوں میں سائنس دان بھی پیدا ہوں گے جو مستقبل کے بڑے بڑے سائنسی چیلنجز میں مسلم امہ کو سرخ رو کر سکیں گے۔
آپ کے ہاتھ میں موجود کتابوں کا یہ سیٹ اسی نوعیت کی ایک بہت پیاری کوشش ہے۔ چھوٹے چھوٹے تجربات پر مشتمل یہ باتصویر کتابیں اپنے دلچسپ پیرائے کی وجہ سے بچوں کے لیے یقینا بہت کشش رکھتی ہیں۔ یہ انھیں تجرباتی سائنس کا شوق دلا سکتی ہیں۔ یہ مستقبل کے سائنس دان بننے کے لیے ہمارے بچوں میں بنیادی شوق پیدا کر سکتی ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ آشیانہ پبلی کیشن کی یہ پیش کش اِن شاء اللہ تعالیٰ والدین اور بچوں میں بہت پسند کی جائے گی۔
دعا ہے کہ ہمارے ننھے منے قاری مستقبل کے بڑے سائنس دان بنیں۔ایسے ایمان والے سائنس دان جواپنے ایمانی جذبے کے ساتھ کیے گئے سائنسی تجربات سے عمومی طور پر پوری انسانیت کی فلاح کے لیے کاربند ہوں اور خصوصی طور پر مسلم امہ کا نام روشن کریں، آمین!

کتاب:

آئیے سائنس دان بنیں

مصنف:

اعظم طارق کوہستانی

صفحات:

متفرق

ناشر:

آشیانہ پبلی کیشنز، کراچی

اعظم طارق کوہستانی

مزید دیکھیے

میاں بلاقی کے کارنامے
اردو ذخیرۂ الفاظ
آئیے سائنس دان بنیں
سفید گیند