سید بلال پاشا کی کتاب کا مسودہ ہمارے بالکل سامنے میز پر رکھا ہے۔ کتاب نک سک سے تیار، ہر طرح سے سجی سنوری پریس جانے سے پہلے، بالکل آخری مرحلے میں ہمارے پاس آئی ہے کہ ہم اس پر مدیر کی حیثیت سے کچھ لکھ دیں۔
اور ہم کافی دیر سے بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ لکھیں تو کیا لکھیں؟
پاشا پر لکھیں…یا اُس کی اِن ضیا پاشیوں پر جو اس نے بڑی مغز پاشی کے بعد اِس کتاب میں جمع کردی ہیں۔
یہ ساری کی ساری ’’ضیا پاشیاں‘‘نہیں ہیں… اُن میں سے کچھ’’ نمک پاشیاں‘‘ ہیں تو کچھ’’برق پاشیاں‘‘ بھی!
یعنی صرف میٹھی میٹھی سنجیدہ اصلاحی کہانیاں ہی آپ کو اس کتاب میں نہیں ملیں گی، بلکہ جہاں آپ کا دل زیادہ میٹھے سے بھاری ہوا، کوئی نہ کوئی طنز و مزاح سے بھر پور نمکین تحریر، آپ کی زباں پر نمک گھول دے گی۔
بلال پاشا صاحبِ کتاب ہونے کے اعتبار سے ابھی کافی کم عمر ہے، یعنی محض 24سال عمر۔ویسے تو خیر کوئی لکھاری کسی بھی عمر میں صاحبِ کتاب ہوسکتا ہے، مگر ہم دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ 40سال سے پہلے لکھاری کو اپنی کتاب شائع کرنے کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے۔ کیوں کہ اوائل عمری میں لکھی گئی کتاب، جب آدمی پختہ عمر میں خود پڑھتا ہے تو اکثر ا پنے لکھے ہوئے کو خود ہی مسترد کردیتا ہے۔
سید بلال پاشا کے معاملے میں مگر ہم نے اپنی ہی رائے کو مسترد کردیا، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ کتاب ’’ سفید گیند‘‘ کوئی فلسفے کی کتاب تو ہے نہیں، بلکہ یہ تو کہانیوں کا مجموعہ ہے، جو بچوں اور ٹین ایجرز کے لیے لکھی گئی ہیں۔ وہ کہانیاں جو کتاب سے پہلے ’’بچوں کا اسلام‘‘ جیسے مقبول ہفت روزے میں چھپ کر مقبولِ خاص و عام ہوچکی ہیں… اور ظاہر ہے کہ اللہ رکھے، بلال جب40کے سِن کو پہنچے گا، تب اگر اپنی اِن کہانیوں کو فنی اعتبار سے کم تر جانے گا بھی، تب بھی اِس کتاب کے قاری تو وہی بچے اور نوجوان ہوں گے ،سو اس وقت کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے تب بھی یہ کتاب بے حد دلچسپی رکھتی ہوگی۔
اس کتاب کے ہر صفحے پر بلکہ سطر سطر میں آپ کو ایک کہانی ملے گی… حتیٰ کہ جو مضامین ہیں، اُن میں بھی آپ کہانی پن کا سا لطف پائیں گے… کیوں کہ جیسے شعریت کے لیے شعر کا ہونا لازم نہیں ہے، اسی طرح کہانی پن کے لیے بھی کہانی کی صنف کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بلال میاں بھی لگتا ہے کہ کہانی سے اتنے متاثر ہیں کہ مضمون لکھتے ہیں تو اُس میں بھی ’’اپنی‘‘ کوئی نہ کوئی کہانی ڈال دیتے ہیں۔
پچھلے دو تین برسوں میں سید بلال پاشا کی ایک شناخت جاسوسی ادب کے لکھاری کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ یہ اُن سے سرزد ہو جانے والی چندجاسوسی کہانیوں کی بدولت ہوا ،جو حلقۂ قارئین میں بہت مقبول ہوئیں۔ جاسوس سیریز کی اِن کہانیوں کے مستقل کردار بھی ہیں، جو آہستہ آہستہ ابھر کر بلکہ کہنا چاہیے کہ نکھر کر ہر اگلی کہانی میں سامنے آرہے ہیں۔ شاید یہ کردار ابھی تخلیق کے مراحل میں ہیں۔
مصنف کو مشورہ ہے کہ انہیںذہن میں ابھی مزید اِن کرداروں کو پکانا چاہیے اور ایک بہترین سانچے میں ڈھال کر اگلی کہانیوں میں پیش کرنا چاہیے، ایسے سانچے میں جو انسپکٹر جمشید سیریز کے کرداروں کی طرح ہر لحاظ سے مکمل ہو۔
جاسوس سیریز کی اِن کہانیوں میں سے چند اس کتاب میں بھی موجود ہیں تاکہ کتاب کے دسترخوان پر تمام ذائقے جمع ہوجائیں اور یوں ہر ذوق کا قاری اپنی پسند کی ڈش کا انتخاب کرسکے۔
یقین مانیے، یہ خوش نما تاویل ابھی ابھی ہم نے خود گھڑی ہے، کیوں کہ ہم بالکل نہیں چاہتے تھے کہ جاسوس سیریز کی یہ کہانیاں اِس کتاب میں شامل ہوں۔ ہم نے تو بلال میاں کو بہتیرا سمجھایا تھا کہ ہمت پکڑے اور اس سیریز پر مستقل لکھتے ہوئے جاسوسی کہانیوں کی ایک الگ کتاب شائع کرے۔
مگر کم ہمت بلال پاشا کو شاید خود بھی یقین نہیں ہے کہ اُن کی اگلی کتاب بھی کوئی آسکے گی، اس لیے وہ اپنے ہشت چہرہ قلم کے تمام چہروں سے اسی کتاب میں نقاب اٹھانے پر تلے بیٹھے ہیں کہ نجانے قسمت دوبارہ انہیں صاحبِ کتاب ہونے کا اعزاز بخشتی بھی ہے کہ نہیں…؟!
یہی وجہ ہے کہ نہ صرف (Gener)کے اعتبار سے اس کتاب میں اُن کی تحریریں مختلف ہیں، جیسے مزاحیہ، اصلاحی، جاسوسی اور روتی دھوتی تحریریں… بلکہ عمر اور جنس کے اعتبار سے بھی انہوں نے اپنی ہر اچھی تحریر کو اس کتاب میں جمع کر لیا ہے۔ یعنی نہ صرف چھوٹے بڑے بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں بلکہ بڑی ’’بچیوں‘‘ (خواتین) کے لیے لکھی گئی چند مزیدار تحریریں بھی آپ اِس کتاب میں پڑھ سکیں گے۔
خیر اُن کی کتاب، ان کی مرضی… ہم تو اس کام کی طرف دوبارہ متوجہ ہوتے ہیں، جس کے لیے یہ کتاب
ہماری میز تک آئی ہے… یعنی کتاب اور صاحبِ کتاب کی موجود غیر موجود خصوصیات کو ’’دریافت‘‘ کرنا!
تفنن بر طرف! اس میں کوئی شک نہیں کہ شوخی قلم اور شگفتہ اسلوب بلال کی تحریر کی بڑی خوبی ہے۔ یہ شوخی و شگفتگی اس کے قلم میں یقینا اُس کے مزاج سے منتقل ہوئی ہے۔ وہ ایک شوخ و شنگ دل پہلو میں رکھتا ہے، سو انتہائی سنجیدہ بات میں بھی مزاح کا عنصر پیدا کر لینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ شوخی و شگفتگی کا یہ کمال آپ کواِس کتاب کی دو شگفتہ تحریروں ’’ماسیاں‘‘ اور ’’کتے ‘‘میں اپنے عروج پر نظر آئے گا۔
ایسے ہنستے کھیلتے کھلنڈرے قلم سے پھر جب آ پ’’تم بے حس ہو‘‘ اور’’میں بکھر رہا ہوں‘‘ جیسی دل گداز تحریریں پڑھتے ہیں توآپ حیران رہ جاتے ہیں۔آپ پر یکایک انکشاف سا ہوتا ہے کہ یہ لاپروا سا لڑکا تو دل میں ایک بے حد حساس دل بھی رکھتا ہے!
ان دونوں تحریروں کو پڑھتے ہوئے ایک یا سیت سی دل پر طاری ہوجاتی ہے، جیسے سینے میں کچھ چھن سے ٹوٹ گیا ہو… مگر ہم تو یہی کہیں گے کہ اس رنگ میں بھی بلال میاں نے کمال کر دکھایا۔ شاید دل کا شدید تاثر تھا، جو اِن دونوں تحریروں کے لفظ لفظ سے جھلکا اور قاری کے دل کو گداز کر گیا ۔
بہر حال قصہ مختصر! ہم آپ کو پورا یقین دلاتے ہیں کہ ابھی ابھی جو آپ نے اس کتاب کی خرید اری کے لیے چند سو روپے خرچ کیے ہیں، یہ ان شاء اللہ آپ کو کتاب پڑھتے ہوئے پوری طرح وصول ہوتے محسوس ہوں گے۔