پاکستان سے شائع ہونے والے بچوں کے رسائل میں سب سے قدیم رسالہ تعلیم و تربیت ہے، جو مارچ 1941ء سے مسلسل شائع ہو رہا ہے، پاکستان کا دوسرا قدیم ترین رسالہ محمد امین شرقپوری کا جاری کردہ ماہنامہ بچوں کی دنیا ہے، جو 1948ء سے شائع ہو رہا ہے۔ اس کے بانی محمد امین شرقپوری 1912ء میں شرقپور میں پیدا ہوئے، شرقپور ہی سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، بیس سال کے تھے تو دہلی جا کرایک فرم میں معمولی ملازمت کر لی، اگلے سولہ سال تک وہ مختلف نجی و سرکاری اداروں میں کام کرتے رہے، اسی دوران میں ان کو لکھنے کا شوق ہوا اور ان کے افسانے ادب لطیف، ادبی دنیا، نیرنگ خیال وغیرہ میں شائع ہونے لگے تھے۔
حافظ محمد دہلوی کے کہنے پر برصغیر کے معروف فلمی رسالے شمع میں فلمی تنقید لکھنی شروع کی، ادارہ شمع نے آپ کے افسانوں کے بھی چار مجموعے شائع کیے۔1952ء میں امین شرقپوری نے تذکرہ اولیائے نقشبندنے نام سے لکھی اور ایک اسلامی رسالہ آئینہ شروع کیا۔قیام پاکستان کے بعد بچوں کا رسالہ شائع کرنے کی نیت کے ساتھ امین شرقپوری پاکستان آگئے تھے، یوں 1948ء میں آپ نے ماہنامہ بچوں کی دنیا کے نام سے رسالہ شائع کرنا شروع کیا، یاد رہے تقسیم ہند سے قبل ریڈیو پر بچوں کا ایک پروگرام بھی اسی نام سے پیش کیا جاتا تھا اور 1929ء سے الہٰ آباد، ہندوستان سے بھی ایک ماہنامہ بچوں کی دنیا کے نام سے ایک رسالہ شائع ہو رہا تھا۔
بچوں کی دنیا کے پہلے مدیر خود محمد امین شرقپوری ہی تھے، اور رسالہ ہر ماہ کی پندرہ تاریخ کو شائع ہوتا تھا۔ جو آج کل کے حساب سے انوکھی بات ہے۔امین شرقپوری کی جون 1967ء میں وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد سلیم شرقپوری رسالے کے مدیر بنے اور 2003ء میں اپنی وفات تک رسالے کے مسلسل 36 سال مدیر رہے، ان کے بعد کے بعد ادارے سے منسلک ایک قدیم ساتھی محمد اشرف شیخ جو شروع میں ماہنامہ شمع کے شعبہ سرکولیشن میں تھے؛مدیر بن گئے، ان کی بیگم وفات پا گئیں تو ان کی اکلوتی بیٹی جو لندن میں تھیں، انھوں نے والد کو بھی لندن بلا لیا، یوں ماہ نامہ بچوں کی دنیا کی ادارت کے فرائض ایم یوسف کے کندھوں پر آگئے، جو قبل ازیں بچوں کی دنیا کی کہانیوں کے اسکیچز بناتے تھے اور اس کے علاوہ ماہنامہ بچوں کا باغ کے مالک تھے، اس کے ساتھ انھوں نے ماہنامہ جگنو (جو کسی زمانے میں شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور کے تحت نکلتا تھا) بھی دوبارہ شروع کر دیا، لیکن چند سال بعد ایم یوسف بھی انتقال کر گئے، اور پھر ان کے بیٹے نے کچھ عرصہ یہ ذمہ داری نبھائی۔ آخرکار 2018ء میں رسالے کے حقوق اشاعت لاہور کے ایک نوجوان ناشر محمد فہیم عالم نے خریدے۔ شروع میں بچوں کی کتاب پر سرکاری سیرت ایوارڈ یافتہ راحت عائشہ اس کی مدیر بنیں۔ پھر جب کورونا کی وبا آئی تو تین شماروں کی کاغذی اشاعت نہ ہو سکی، کورونا کی وجہ سے رسالے پر برا وقت آیا اور تعداد اشاعت بری طرح متاثر ہوئی۔ دسمبر 2020ء میں راحت عائشہ کے بعد بچوں کے معروف ادیب نزیر انبالوی مدیر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ جب کہ مدیر اعلیٰ خود محد فہیم عالم ہیں۔
امین شرقپوری نے 1957ء میں ماہنامہ بچوں کی دنیا میں ”’ننھے کے کارنامے”’ کے عنوان سے سلسلہ وار باتصویر کہانی شروع کی، جو 2017ء تک مسلسل جاری رہی، یاد رہے کسی اردو ماہنامے میں اتنے طویل عرصے تک کسی کہانی کا شائع ہونا ہی ایک ریکارڈ ہے، اس کہانی کو باپ، بیٹے اور پوتے (امین شرقپوری، ان کے بیٹے سلیم شرقپوری اور ان کے بیٹے نے بھی لکھا) اس دوران میں دیگر دو لوگوں نے بھی کچھ مہینے ننھے کے کارنامے کی اقساط لکھیں، یوں یہ سلسلہ 60 سال تک شائع ہوا۔ اس سلسلے کی مقبولیت کا اس بات سے بھی اندازہ لگائیں کہ اردو میں ننھے کے کارنامے بطور طنزیہ جملے کے استعمال ہونے لگا۔
ہر قسط تین سے پانچ صفحات پر اور فی صفحہ دو تصاویر کے ساتھ شائع ہوتی، خاص نمبر میں اس کے لیے زیادہ صفحات ہوتے تھے، میرے محتاط اندازے کے مطابق کم و پیش تین ہزار صفحات پر پانچ ہزار تصاویر کے ساتھ کوئی تین لاکھ الفاظ پر یہ سلسلہ شائع ہوا ہے۔موجودہ انتظامیہ اس سلسلے کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ننھے کے کارنامے کو پرانے شماروں سے اسکین کیا جا رہا ہے۔
رسالے کی روایت تھی کہ ہر سال ایک کہانی نمبر، ایک خاص نمبر اور سالنامہ شائع ہوتا تھا۔ جب کہ حالیہ عرصے میں موجودہ انتظامیہ نے بھوت نمبر، امی نمبر، خواب نمبر، پراسرار نمبر وغیرہ شائع کیے ہیں اور جولائی 2023ء میں الف لیلہ نمبر اور 2024ء میں بچوں کی دنیا پچھتر سالہ نمبر شائع ہوا ہے۔ جس میں بچوں کی دنیا کے دستیباب ساٹھ کی دہائی سے سن 2000ء تک کے شماروں سے راقم الحروف نے انتخاب بھی کرکے دیا، جو بچوں کی دنیا کلاسک کے عنوان سے اس خاص نمبر میں شائع ہوا۔
1969ء کے ایک شمارے میں حبیب الرحمن شیر نے انڈونیشیا سے خط لکھا، جس میں اس نے بتایا کہ وہ ہر ماہ پاکستانی سفارت خانے سے بچوں کی دنیا لا کر پڑھتا ہے۔ متحدہ پاکستان کے دور کے شماروں میں موجودہ بنگلہ دیش کے بچوں کے خط اور تحریریں نظر آتی ہیں اور دہلی کے بچوں کی بھی، کیوں کہ ادارہ شمع، دہلی اور امین شرقپوری کا ادارہ کتابوں اور رسالوں کا ہر ماہ تجارتی تبادلہ کرتا تھا۔
عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے، کہ ماہنامہ بچوں کی دنیا ماضی میں محض جنوں پریوں (مافوق الفطرت) کہانیوں کا رسالہ تھا۔ لیکن پرانے شماروں کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ اس میں اسلامی کہانیاں، تاریخی قسط وار ناول، مزاحیہ کہانیاں اور تصویری کہانیاں، سائنس فکشن، کہاوتوں کی کہانیاں، تراجم، لوک کہانیاں، سوال جواب کے سلسلے، لطائف، قلمی دوستی، انٹرویو، معلوماتی مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ جب کہ موجودہ رسالہ بھی ایسے ہی سلسلوں پر مشتمل ہے۔
رسالے میں نعیم میاں، ستار طاہر، اے حمید، امان اللہ نئیر شوکت، مقبول احمددہلوی، ضیا الحسن ضیا، عابد نظامی، فراز صدیقی، ناصر زیدی، زاہد الحسن زاہد اور دیگر کئی معروف لکھنے والوں کا قلمی تعاون حاصل رہا ہے۔ جب کہ موجودی دور میں بہت بڑی تعداد ہے، جو رسالے میں لکھ رہی ہے، خصوصاً خواتین لکھاریوں کی ایک قابل ذکر تعداد کی کہانیاں ہر ماہ شائع ہو رہی ہیں۔
ویسے تو اس کا یہی اعزاز بہت بڑا ہے کہ یہ اردو میں شائع ہونے والا بچوں کا دوسرا سب سے قدیم رسالہ ہے۔ رسالے کو پاکستان میں بچوں کے رسائل پڑھنے والا ہر قاری جانتا ہے، چائے اس کی جو بھی عمر ہو کہ یہ پاکستان کا ہم عمر رسالہ ہے۔ پاکستان کے بچوں کے رسائل کی تاریخ، بچوں کی دنیا کے تفصیلی ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ افسوس کہ اس تاریخی رسالے کا ریکارڈ ایک جگہ موجود نہیں، نہ ہی اس پر کسی نے الگ سے تحقیقی کام کیا ہے، اس پر جامعاتی سطح پر تحقیقی کام ہونا چائیے۔س رسالے کا مکمل ریکارڈ محفوظ کیا جائے کہ یہ بچوں کے پاکستانی ادب کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ میں نے 2023ء میں ادارے سے درخواست کی تھی کہ ادارہ اس خزانے کو جمع کرے اور ایک 75سالہ انتخاب مرتب کرے۔ اب یہ انتخاب نمبر جولائی 2024ء میں شائع ہو گا۔
== حوالہ جات ==
مضمون کی تیاری میں ماہنامہ بچوں کا دنیا اور ماہنامہ آئینہ لاہور کے مختلف شماروں سے مدد لی گئی ہے۔