Gulam Rasool Zahid

غلام رسول زاہد

اعظم طارق کوہستانی

بچوں کے ادب میں جاسوسی کہانیاں اور ناول لکھنے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں نوعمر (ٹین ایج) بچوں کی ایک بڑی تعداد بہت زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ جہاں یہ صنف بچوں میں مقبول ہے وہیں اس قسم کی کہانیاں یا ناول لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور خالہ جی کا گھر نہیں۔ جاسوسی اور تفتیش کے طریقِ کار سے آگاہی اور گہرا مشاہدہ مصنف اور ادیب کے لیے بہت ضروری ہے۔ لکھنے والا جتنا ذہین ہوگا، اس کے کردار بھی اپنی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے نت نئے طریقے اپنائیں گے۔
پاکستان میں بچوں کے ادب میں جاسوسی کہانیاں لکھنے والوں میں اشتیاق احمد سرفہرست ہیں۔ اسی طرح اے حمید نے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ موجودہ دور میں ’’غلام رسول زاہد‘‘ اپنے مضبوط پلاٹ پر بُنی کہانیوں کے ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں۔ آپ کی خاص بات یہ ہے کہ آپ بچوں کے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ حاضر سروس ایڈیشنل آئی جی بھی ہیں۔ آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قائداعظم گولڈ میڈل، یونیورسٹی اعزاز اور اکیڈمک رول آف آنر حاصل کیے۔ تین سال کالج کی سطح پر درس و تدریس سے منسلک رہے۔ مقابلے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور تحریری امتحان میں ملک بھر میں اول رہے۔ پولیس سروس آف پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔
بطور اے ایس پی ایبٹ آباد، پشاور اور کراچی میں تعینات رہے۔ ایس پی کی حیثیت سے کراچی، راولپنڈی، لاہور، خانیوال اور سرگودھا میں اہم خدمات سرانجام دیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن برائے کوسوو میں تربیت اور مشاورت کے فرائض ادا کیے اور یو این میڈل کے حقدار ٹھہرے۔ سرکاری فرائض کے سلسلے میں ترکی، سعودی عرب، امریکہ اور کینیڈا کے سفر کیے۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے تربیتی کورس پاس کیا۔ انٹیلی جنس بیورو میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ بطور ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس اور نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف میں اِنھیں صدر پاکستان کی طرف سے پریزیڈنٹ پولیس میڈل عطا کیا گیا۔
دورانِ ملازمت پنجاب یونیورسٹی سے لاء اور علوم اسلامیہ جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ریاست کے امن سے متعلق قرآنی تعلیمات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور مختلف چینلز میں بطور مہمان شریک گفتگو ہوتے ہیں۔
ادبی میدان میں آپ نے بچوں کا اسلام میں متعدد کہانیاں لکھیں۔ بچوں کے لیے آپ کا ایک ناول پراسرار تحریر شائع ہوچکا ہے، جبکہ سبز خون، پھول کی گواہی، سونے کی تلوار ، ایک پولیس آفیسر کی ڈائری (دو حصے)پر مشتمل کہانیوں کے مجموعے آچکے ہیں۔ اسی طرح آپ کا ایک سفرنامہ کوسوو جبکہ دو شعری مجموعے بھی شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہم نے ایک نشست میں ان سے بچوں کے ادب کے حوالے سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا۔ قارئین اور بچوں کے لیے لکھنے والے ادیبوں کو یقیناً اس مفید گفتگو سے سیکھنے کے نئے زاویے ملیں گے۔بچوں کے ادب میں جاسوسی کہانیاں اور ناول لکھنے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں نوعمر (ٹین ایج) بچوں کی ایک بڑی تعداد بہت زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ جہاں یہ صنف بچوں میں مقبول ہے وہیں اس قسم کی کہانیاں یا ناول لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور خالہ جی کا گھر نہیں۔ جاسوسی اور تفتیش کے طریقِ کار سے آگاہی اور گہرا مشاہدہ مصنف اور ادیب کے لیے بہت ضروری ہے۔ لکھنے والا جتنا ذہین ہوگا، اس کے کردار بھی اپنی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے نت نئے طریقے اپنائیں گے۔
پاکستان میں بچوں کے ادب میں جاسوسی کہانیاں لکھنے والوں میں اشتیاق احمد سرفہرست ہیں۔ اسی طرح اے حمید نے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ موجودہ دور میں ’’غلام رسول زاہد‘‘ اپنے مضبوط پلاٹ پر بُنی کہانیوں کے ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں۔ آپ کی خاص بات یہ ہے کہ آپ بچوں کے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ حاضر سروس ایڈیشنل آئی جی بھی ہیں۔ آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قائداعظم گولڈ میڈل، یونیورسٹی اعزاز اور اکیڈمک رول آف آنر حاصل کیے۔ تین سال کالج کی سطح پر درس و تدریس سے منسلک رہے۔ مقابلے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور تحریری امتحان میں ملک بھر میں اول رہے۔ پولیس سروس آف پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔

بطور اے ایس پی ایبٹ آباد، پشاور اور کراچی میں تعینات رہے۔ ایس پی کی حیثیت سے کراچی، راولپنڈی، لاہور، خانیوال اور سرگودھا میں اہم خدمات سرانجام دیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن برائے کوسوو میں تربیت اور مشاورت کے فرائض ادا کیے اور یو این میڈل کے حقدار ٹھہرے۔ سرکاری فرائض کے سلسلے میں ترکی، سعودی عرب، امریکہ اور کینیڈا کے سفر کیے۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے تربیتی کورس پاس کیا۔ انٹیلی جنس بیورو میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ بطور ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس اور نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف میں اِنھیں صدر پاکستان کی طرف سے پریزیڈنٹ پولیس میڈل عطا کیا گیا۔
دورانِ ملازمت پنجاب یونیورسٹی سے لاء اور علوم اسلامیہ جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ریاست کے امن سے متعلق قرآنی تعلیمات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور مختلف چینلز میں بطور مہمان شریک گفتگو ہوتے ہیں۔
ادبی میدان میں آپ نے بچوں کا اسلام میں متعدد کہانیاں لکھیں۔ بچوں کے لیے آپ کا ایک ناول پراسرار تحریر شائع ہوچکا ہے، جبکہ سبز خون، پھول کی گواہی، سونے کی تلوار ، ایک پولیس آفیسر کی ڈائری (دو حصے)پر مشتمل کہانیوں کے مجموعے آچکے ہیں۔ اسی طرح آپ کا ایک سفرنامہ کوسوو جبکہ دو شعری مجموعے بھی شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہم نے ایک نشست میں ان سے بچوں کے ادب کے حوالے سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا۔ قارئین اور بچوں کے لیے لکھنے والے
ادیبوں کو یقیناً اس مفید گفتگو سے سیکھنے کے نئے زاویے ملیں گے۔


انٹرویو کا آغاز ہم نے روایتی انداز سے شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے اُن کے بچپن کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے بتایا:
مکمل نام غلام رسول زاہد ہے۔ اکتوبر 1964ء میں قبولہ شریف میں پیدا ہوا۔ یہ ایک تاریخی قصبہ ہے۔ چھے سات سو سال قدیم یہ تحصیل عارف والا ڈسٹرکٹ پاک پتن پنجاب میں واقع ہے۔ یہاں سے ہی میں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ یہاں ایک اسکول ہےجس کا نام جامعہ اسلامیہ ہے۔اس کا سرکاری نام Arabic Modal high school ہے، اس جامعہ کے مزاج میں اسلامی روح تھی۔ یہاں سے میٹرک کیا اور ملتان بورڈ میں پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہا۔ چھے سال میں نے یہاں گزارے۔ انٹر میڈیٹ میں لاہور بورڈ میں ٹاپ کیا اور بی اے میں پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد انگلش ادبیات میں ایم۔اے، گورنمنٹ لاہور کالج ہی سے کیا۔ اس پڑھائی سے فراغت کے بعد میں نے اپنے علاقے عارف والا میں گورنمنٹ ڈگری کالج میں تین سال انگریزی پڑھائی۔ اسی دوران مقابلے کا امتحان دیا۔ سی۔ایس ۔ ایس اور پولیس میں میرا انتخاب ہوا اور 1991ء میں پولیس میں شمولیت اختیار کی اور اس کے بعد سے میں پولیس سروس میں خدمات سر انجام دے رہا ہوں۔

سوال:بچپن میں مطالعہ کیسے کرتے تھے اور اس وقت کن کن ادیبوں کو پڑھا؟
غلام رسول زاہد: بچپن والدین کے زیر تربیت گزرا۔ اس میں کتابیں پڑھنا زندگی کالازمی حصہ تھا۔ ہم نے اپنے گھر میں بچپن میں ساری اہم کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔ اقبال، غالب، غزالی، ابن خلدون اور سید مودودی کی کتابیں اپنے گھر میں دیکھیں۔ مطالعے کا شوق تو شروع ہی سے تھا۔ اس وقت فیروز سنز، غلام علی اینڈ سنز جیسے پبلشرز اپنے عروج پر تھے اور یہ ادارے بچوں کی بہترین کتابیں شائع کررہے تھے۔ جب یہ کتابیں ہمیں دستیاب ہوئیں تو ہم نے انھیں پڑھنا شروع کیا۔ میں خاص طور پر مقبول جہانگیر کا ذکر کروں گا، کیونکہ ابتدا میں ان ہی سے ہمارا تعارف ہوا۔ داستان امیر حمزہ کو جس طرح سے دس حصوں میں اُنھوں نے سمویا وہ ایک بڑا تاریخی کام تھا۔ اب بھی اس داستان کو آپ پڑھیں تو اس کی زبان وبیان اور واقعات آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیں گے۔ اس وقت بہت سارے بچوں کے ادیب بہت اچھا لکھ رہے تھے۔ ہم نے اس وقت بچوں کے جن مشہور ادیبوں کو پڑھا ان میں عزیز احمد اثری،سلیم احمد صدیقی، یونس حسرت، اختر رضوی، زبیدہ سلطانہ، جبار توقیر سمیت کئی بڑے نام شامل تھے۔ یہ وہ ماحول تھا جو ہمیں اسکول میں بھی ملا۔ ہمارے اسکول میں بیت بازی کے پروگرام ہوتے تھے۔ تقریری مقابلے ہوتے تھے، ان میں، مَیں بھی شریک ہوا کرتا تھا اور اس دوران میں نے کئی انعامات جیتے۔ ہمارے آس پاس کا جو ایک ماحول تھا وہ ادب کے لحاظ سے بڑا زرخیز، خوشگوار ماحول تھا، اسی ماحول میں ہم پروان چڑھے الحمد للہ!

سوال: آپ طویل عرصے سے پولیس کے محکمے سے وابستہ ہیں، جہاں مطالعہ اور لکھنا یقیناً بہت سے لوگوں کے لیے اچھنبے کی بات ہے۔ اس تجربے کو کیسے دیکھتے ہیں۔ ساتھی کولیگز لکھنے لکھانے کے اس کام کو سراہتے ہیں؟
غلام رسول زاہد: جہاں تک پولیس سروس کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے ملازمتیں تو ساری مشکل ہوتی ہیں لیکن مشکل ترین نوکریوں میں ڈاکٹر کی اور پولیس افسر کی جاب سب سے مشکل ہے اور اسی لیے یہ ایمرجنسی سروسز شمار ہوتی ہیں۔ جب ہم آئین پاکستان پڑھتے ہیں جہاں پر بنیادی انسانی حقوق کا ذکر کیا جاتا ہے کہ کسی سے ایک خاص وقت سے زیادہ کام نہیں لیا جاسکتا۔ کیوںکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو وہاں آپ دیکھتے ہیں کہ جب کبھی ضروری خدمات کے محکموں (Essential Services)کا ذکر آتا ہے، اس میں آرمی، پولیس ڈاکٹرز کی اسپیشل سروسز شامل ہیں، ان محکموں سے جتنا بھی کام لیا جائے، اس پر یہ صدائے احتجاج بلند نہیں کرسکتے۔ کیوںکہ ان کی خدمات کا براہ راست تعلق انسان کی جان ومال اور عزت سے ہے، لہٰذایہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ یہ ایک مشکل جاب ہے، اس کے تقاضے بڑے مشکل ہیں لیکن اس کا مثبت پہلو بھی ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں آپ کا انسانی زندگی کے ان پہلوؤں سے واسطہ پڑتا ہے جہاں لوگوں کو آپ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مظلوموں کو آپ کی مدد درکار ہوتی ہے۔ آپ ان کے کام آتے ہیں اور پھر آپ زندگی کے مختلف زاویے، مختلف رنگ، مختلف پہلو دیکھتے ہیں۔ ایک پولیس آفیسر اور ڈاکٹر کو مشاہدے کے جتنے مواقع ملتے ہیں کسی عام آدمی کو نہیں مل سکتے۔ اگر کوئی آدمی صاحب دل ہو، دردمند ہو اور کچھ اس کو اظہار کی قوت بھی اللہ نے دی ہو تو جتنا اچھا کہانی نگار پولیس والا ہوسکتا ہے، کوئی عام شخص نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ وہ اپنے ذاتی تجربے سے لکھتا ہے اور پھر وہ اس میں تخلیق بھی شامل کر دے تو وہ بہترین کہانیاں لکھ سکتا ہے، لیکن اس جانب توجہ نہیں دی جاتی اور یہ بدقسمتی کی بات ہے۔ جس طرح کا مواد ایک پولیس والے کے پاس ہوتا ہے اور میں صرف جاسوسی کہانیوں کی بات نہیں کر رہا، معاشرتی و اخلاقی کہانیاں جس سے بچوں کو سبق مل سکتا ہے، ایک پولیس افسر بہت اچھی لکھ سکتا ہے۔

سوال: بچوں کے بڑے ادبا پہلے بہت اہتمام کے ساتھ لکھا کرتے تھے، اب یہ سلسلہ ہمیں منقطع نظر آرہا ہے، اس کی آپ کیا وجہ سمجھتے ہیں؟
غلام رسول زاہد: بدقسمتی سے ہم جس زمانے میں زندہ ہیں یہاں کتاب پڑھنے والوں کی تعدادبہت کم ہوگئی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی۔ کتاب تو ہمیشہ زندہ رہے گی، قائم رہے گی۔ لوگ اسے پڑھتے رہیں گے لیکن اب اس کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں بچے اب بھی پڑھتے ہیں۔ پڑھے لکھے بڑوں نے کتاب پڑھنی چھوڑ دی ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ پچھلے دنوں میرے اپنے محکمے نے مجھےمیری کتاب پر بڑا گراں قدر انعام دیا ہے کہ میں نے کتابیں لکھی ہیں۔ بچوں کے لیے بھی اور بڑوں کے لیے بھی لکھا، خصوصاً بچوں کے لیے لکھنا بڑے معرکے کا کام ہے۔ اس پر جتنی توجہ ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔ بڑوں کے لیے لکھنے والے ادیب اس کو اس اینگل سے شاید محسوس نہ کرسکیں لیکن بات یہ ہے کہ جس کو بھی ادب یا پھر بچوں کے ادب کا تھوڑا بہت شعور ہے وہ یقیناً اس کی پذیرائی بھی کرے گا اس سے خوش بھی ہوگا۔
ہمارے اُردو ادب کے جتنے بڑے ادیب گزرے ہیں ہر بڑے ادیب نے بچوں کے لیے لکھا ہے۔ کوئی بھی نام اُٹھا کے دیکھ لیں۔ اسماعیل میرٹھی اور امتیاز علی تاج سے شروع ہوں، پھر آپ احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، قرۃ العین حیدر، کرشن چندر اور عصمت چغتائی کو پڑھیں۔ علامہ اقبال کے ہاں آپ کو بانگ درا کے آغاز ہی میں ہمدردی، پہاڑ اور گلہری، ماں کا خواب جیسی بڑی شاندار نظمیں ملتی ہیں۔ صوفی تبسم اتنے بڑے آدمی گزرے ہیں جو استادوں کے استاد ہیں۔ انھوں نے جہاں ادبی شاہ پار ے چھوڑے ہیں۔ وہاں بچوں کے لیے بڑی خوبصورت شاعری بھی کی ہے ۔ بچوں کے لیے ان کا ٹوٹ بٹوٹ آتا ہے اور چھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے نرسری کی نظموں میں جتنی اچھی شاعری انھوں کی ہے وہ کسی اور کی نہیں ہے۔ آپ ان کی استادانہ عظمت پر کلام نہیں کرسکتے۔ اب یہ ہے کہ جو بڑا لکھنے والا ادیب ہے اس نے یہ کہا نیاں لکھنی چھوڑ دی ہیں۔ اس کو میں اس طرح لیتا ہوں کہ وہ ایک لحاظ سے اپنے کوتاہی فن کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بچوں کے لیے نہیں لکھ سکتے۔ بچوں کے لیے بڑے ادیب کا لکھنا اس کے اوپر ایک ایسا قرض ہے جو اسے ادا کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ بچہ جو تحریر پڑھے گا جس طرح سے وہ اس کا اثر قبول کرے گا، بڑا نہیں کرے گا اور جس طرح بچے کےذہن میں زیادہ اچھے اور مثبت نقوش ثبت ہوں گے، اس طرح بڑے آدمی میں کتاب پڑھتے ہوئے قبولیت پیدا نہیں ہوتی۔

سوال: آپ خود کہانی کی طرف کب آئے؟
غلام رسول زاہد: کہانی کا مجھے شروع سے شوق ہے اور میں نے بہت زیادہ بچوں کی کتابیں پڑھی ہیں اور اب بھی پڑھتا ہوں۔ کہانی لکھنے کی جو تحریک مجھے ملی ہے وہ اشتیاق احمد سے ملی ہے۔ جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو میں نے اشتیاق صاحب کو پڑھنا شروع کیا۔ چونکہ ان کا انداز ایسا آپ کو اپنے سحر میں گرفتار کر لینے والا ہوتا ہے کہ پھر اس کے بعد کسی دوسرے کی طرف آپ کی توجہ کم ہی جاتی ہے۔ میں اشتیاق احمد مرحوم سے یہ کہا بھی کرتا تھا کہ آپ کی جو مقبولیت ہے، اس کا نقصان بھی ہوا ہے۔ جتنے بڑے بڑے لوگ تھے جو بڑی خوبصورت کہانیاں اور ناول لکھا کرتے تھے۔ پس منظر میں چلے گئے، آپ آئے آپ نے سب کو ایک لحاظ سے غیر مقبول کردیا (لیکن ظاہر ہے یہ ان کی طرف سے کوئی دانستہ یاپلان چیز نہیں تھی) ہم خوش نصیب ہیں کہ اشتیاق احمد کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقبولیت عطا کی۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جن کے نظریات، جن کی وطن سے محبت بڑے مثبت خطوط پر استوار تھی۔ میں ان سے کہا کرتا تھا کہ ہم لوگ خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقبولیت عطا کی جس کی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ بچوں کی تربیت میں آپ کا کردار مثبت ہی رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ میں نے اشتیاق احمد صاحب کو پڑھ کر ہی لکھنا شروع کیا۔ میٹرک کے بعد فراغت کے جو چند ماہ مل جاتے ہیں، میں نے اس دوران میں ایک ناول لکھا، اس کا انداز اگرچہ اشتیاق احمد کی طرح ہوبہو تو نہیں ہے لیکن کافی زیادہ اس میں آپ کو اشتیاق احمد کا اثر نظر آئے گا۔ یہ۱۹۸۰ء کی بات ہے، جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں آیا تو’’پراسرار تحریر‘‘ کو یہاں سے مکتبہ قریش نے شائع کیا۔ یہ میری بسم اللہ تھی اور اس وقت میری عمر سولہ برس تھی۔

سوال: کیا مغربی ادب میں کسی جاسوسی کہانی کار، ناول نگار سے متاثر ہوئے؟
غلام رسول زاہد: دیکھیں جو ادب یورپ میں لکھا گیا ہے وہ بڑے پائے کا ہے۔ کمال کا ہے۔ انگریزی ادب میں بہت بہترین کہانیاں لکھی گئی ہیں اور بچوں کے لیے تو کیا ہی خوب اور نت نئے تجربات کیے گئے ہیں۔ جاسوسی کے میدان میں اگاتھاکرسٹی، آرتھر کونن ڈائل،ایڈ گر ایلن پوکے نام کا طوطی بولتا تھا۔ انھوں نے بہت اچھی تحریریں لکھیں۔ ہم خوش نصیب تھے کہ بچپن ہی میں ہم نے ان بڑے ناموں کو پڑھ ڈالا۔

سوال: بچے اور بچوں کا ادب، پاکستان کے تناظر میں اسے کیسا دیکھتے ہیں اور اس میں مستقبل کی کیا صورت گری پیش کرتے ہیں؟
غلام رسول زاہد: بچوں کا ادب ، بچوں کے ذوقِ مطالعہ کی آبیاری کرتا ہے۔ معاشرے میں کتاب خوانی کے جو بچے کھچے اثرات ہیں، وہ بچوں کے ادب ہی کی وجہ سے ہیں۔ اگر بچہ اچھی کتاب پڑھتا ہے تو اس کے اثرات کو قبول کرتا ہے۔ اگر بچے میں مطالعے کا شوق ہے تو جس طرح آپ نے معاشرے کی مستقبل کی بات کی ہے تو وہ بڑے بہترین شہری بنیں گے۔ آپ کوئی بھی مضمون پڑھ رہے ہوں۔ آپ ڈاکٹر بنیں یا پھر آئی ٹی اسپیشلسٹ۔ اگر بچے کو کتاب پڑھنے کا شوق ہے تو اس کے اندر تمام تر تہذیبی اور معاشرتی اقدار منتقل ہوجائیں گی اور وہ یہی عمر ہوتی ہے جس میں وہ تمام چیزیں سیکھتا ہے۔ جس کو بچپن سے ہی مطالعے کا شوق ہے وہ ساری زندگی مطالعہ کرتا رہے گا، لہٰذامیں سمجھتا ہوں کہ بچوں کے اندر کتب بینی کا شوق پیدا کرنا بہت ضروری ہے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بچوں کے ادب کے ذریعے اسے راغب کیا جائے اور جب آپ بچوں کے ادب کی بات کرتے ہیں تو میں اس میں لفظ ’’معیاری‘‘ کا اضافہ کرتا ہوں۔ وہ ادب ایسا ہو جو ہم نے بچپن میں پڑھا تھا جتنے بڑے بڑے مشاہیر ہیں سب کو ہم نے پڑھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنی بڑی عمر کو پہنچے تو ہم نے شاہ ولی اللہ، شبلی نعمانی، سید مودودی کو پڑھنا شروع کیا۔ اسی طرح اقبال کو پڑھنا شروع کیا تو ہمیں کبھی یہ کمی محسوس نہیں ہوئی کہ یہ ہمارے لیے اجنبی نام ہیں۔ ہم سب سے واقف تھے۔ فکشن میں آپ دیکھ لیں۔ ایچ جی ویلز، اگاتھا کرسٹی، جوناتھن سوفٹ کو ہم نے پڑھا۔ ان سب چیزوں سے ہم واقف تھے کیونکہ بچپن میں ہمیں ایسی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا جو یقیناً معیار کے مطابق تھیں۔ اس وقت ہمارے لیے یہ چیلنج ہے کہ دنیا کا جو بہترین بچوں کا ادب تخلیق ہوا ہے، اس کا ترجمہ یا تلخیص بچوں تک پہنچائی جائے۔ ان کو اس طرف راغب کیا جائے۔ اس سے ان کے ذہن کے آفاق وسیع ہوں گے اور وہ زیادہ غوروفکر کرنے والے بچے بنیں گے۔

سوال: جاسوسی کہانیاں لکھتے ہوئے آپ کن چیزوں کو بروئے کار لاتے ہیں، جو لوگ پولیس تحقیقات وغیرہ جیسے معاملات سے دور ہیں، وہ اپنی جاسوسی کہانیوں کو کیسے کم یا ختم کرسکتے ہیں؟
غلام رسول زاہد: اب کا پولیس افسر بدقسمتی سے عمومی طور پر لکھنے کی طرف راغب نہیں ہے، جنتا اچھا مشاہدہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دیا ہے کسی دوسرے شعبے کے فرد کے پاس نہیں ہے۔ ایک پولیس افسر ایک جاسوسی کہانی لکھتا ہے تو وہ تکنیکی اعتبار سے اس کے تمام زاویوں اور جزئیات پر حاوی ہوتا ہے۔ کہانی میں تضادات نہیں ہوتے یا پھر کم ہوتے ہیں۔ اس میں وہ ایسی بات نہیں کرتا کہ پڑھنا والا بدمزہ ہو کہ یہ انھوں نے کیسی بے جوڑ بات کر دی۔ اشتیاق احمد مرحوم مجھے کہا کرتے تھے کہ آپ کی کہانی جب میرے پاس آتی ہے تو مجھے کوئی فکر نہیں ہوتی۔ کیونکہ ساری چیزیں آپس میں مربوط ہوتی ہیں۔ کوئی اس میں ایسی بات نہیں کہی جاتی جو عقل تسلیم نہیں کرتی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تفتیش کا جو عمل ہے یہ بڑا عقلی اور منطقی عمل ہے اور جب بچوں کو آپ جاسوسی کہانیاں پڑھنے کے لیے دیتے ہیں تو پہلی بات یہ کہ مشاہدے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ بہت سی کہانیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑا مسئلہ ایک چھوٹی سی چیز سے حل ہوجاتا ہے۔ گواہی اور شہادتوں کی کیا اہمیت ہے؟ جرم کیوں ہوتے ہیں؟ موقع واردات کی جو شہادت ہے وہ کس طرح اکٹھی کی جاتی ہے؟ اس کی کیا اہمیت ہے اور پھر دیکھیں تفتیش میں آپ کیسے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک پہنچتے ہیں اور کس طرح آپ کڑی سے کڑی ملا کر آخری نتیجے تک پہنچتے ہیں۔ ان ساری چیزیں کا خیال رکھتے ہوئے اگر کوئی پولیس والا جاسوسی کہانیاں لکھتا ہے تو وہ بڑی مربوط اور منظم قسم کی کہانی آپ کے سامنے پیش کرے گا۔ آپ اسے دیکھیں گے تو آپ اسے واقعی سراہیں گے۔ اس کے اثرات بھی آپ پر مرتب ہوں گے۔ عام آدمی یا شوقیہ مزاج آدمی جب لکھتا بھی ہے تو نہ اس نے کوئی قتل کی واردات دیکھی ہوتی ہے، نہ ڈکیتی کی کبھی تفتیش کرتا ہے۔ کون سی چیز شہادت میں شامل ہے کون سی شامل نہیں ہے۔ عدالتی طریقہ کار کیا ہوتا ہے، عدالت میں جرح کیسے کی جاتی ہے، دفاع کیسے کیا جاتا ہے؟ یہ ساری چیزیں وہ نہیں جانتا۔ تو اگر کوئی جاسوسی یا جرم کہانی لکھنا چاہتا ہے تو اسےچاہیے کہ ان معلومات کا احاطہ کرے۔ ان چیزوں کو سیکھے کیونکہ عام کہانی میں آپ اپنے تخیل کی مدد سے کچھ بھی لکھ دیں، وہ چل جاتا ہے، سولات کھڑے نہیں ہوتے۔ جیسے سند باد جہازی کی کہانی ہے۔ آپ کون کون سی راہوں پر چلتے جاتے ہیں کوئی آپ سے اس کا سوال نہیں کرے گا لیکن جاسوسی کہانی یا تفتیش کے مطابق اگر آپ نے کہانی لکھنی ہے تو اس کے اندر پورا ربط ہونا چاہیے اور وہ تکنیکی اعتبار سے ایک مضبوط کہانی ہونی چاہیے۔ میراخیال ہے کہ باقاعدہ ریسرچ اور ہوم ورک کے بعد بچوں اور بڑوں کے لیے جاسوسی کہانی لکھنی چاہیے۔

سوال: کسی مجرم یا ملزم کی داستان کو اس کی اجازت کے بغیر لکھنا، چاہے وہ فرضی ناموں سے ہو لیکن واقعہ بہت مشہور ہو اور کہانی سنتے ہی ذہن اس اصل واقعے کی طرف چلا جائے؟ اسی سے جڑا ایک سوال کہ حالیہ دنوں میں پولیس کی کسٹڈی میں موجود ملزمان کے انٹرویوز مختلف یوٹیوبرز کررہے ہیں۔ کیا یہ عمل ٹھیک ہے؟
غلام رسول زاہد: آپ نے خود ذکر کیا ہے ملزم یا مجرم، ملزم دراصل وہ ہے جس پر الزام ابھی تک ثابت نہیں ہوا۔ الزام کی حد تک ہے اور مجرم وہ ہے جس کے اوپر الزام ثابت ہوچکاہے اسے سزا ہوچکی ہے۔ اس کی اپیل مسترد ہوچکی ہے اور اب وہ بالآخر سزا یاب شخص قرار دیا جاچکا ہے۔
ملزم کے بارے میں واقعی اس طرح کی کہانیاں نہیں لکھنی چاہیے۔ کیوںکہ ہو سکتا ہے بعد میں کسی مرحلے پہ جا کے وہ بَری ہوجائے۔ تو ازالہ حیثیت عرفی کی صورت بن جاتی ہے۔ قانوناً بھی اور اخلاقی طور پر بھی یہ غلط بات ہے، البتہ وہ مجرم جس کی سزا یابی کے تمام مراحل طے ہوچکے ہیں تو اس کے بارے میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ایسے مجرم کو نشانِ عبرت بنا کر پیش کرنا چاہیے۔ آپ نام اور مقامات تبدیل کردیں۔ ثابت شدہ جرائم کی کیس اسٹڈیز بھی ہوتی ہیں۔ جو بڑے بڑے جرائم ہیں دنیا میں ان کی کیس اسٹڈیز موجود ہیں۔
دوسرا ضمنی سوال کہ پولیس کی کسٹڈی میں موجود مجرم سے انٹرویوز مختلف یوٹیوبرز کر رہے ہیں اور کیا یہ عمل ٹھیک ہے؟
تو یہ عمل بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے کہ تفتیش ایک بڑا پیشہ ورانہ اور مشقت والا ماہرانہ کام ہے۔ ہر آدمی اس کو نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ ہر پولیس آفیسر بھی نہیں کرسکتا۔ شعبہ تفتیش الگ ہوتا ہے۔ پھر شعبہ تفتیش کے اندر قتل کے جرم کو ڈیل کرنے کے ماہرین الگ ہوتے ہیں۔ اسی طرح اِغوا اور منشیات کے جرم کو ڈیل کرنے والے بھی ماہر ہوتےہیں جیسے آج کل موبائل فرانزک کے ماہرین ہیں تو عام شہری کے اوپر یہ چیزیں چھوڑی نہیں جاسکتیں اور تفتیش کا عمل محض کہنے سننے کی بات نہیں ہوتی، اس کو عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے اور وہاں عدالت میں وکیل استغاثہ ہوتا ہے۔ وکیل دفاع ہوتا ہے۔ کیس کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں۔ اس کے اوپر جرح ہوتی ہے۔ سوال جواب ہوتے ہیں تب جاکے جج صاحب اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ ملزم جو ہے واقعی مجرم ہے کہ نہیں۔ تو یہ ایک سنجیدہ عمل ہے اور اس کا تعلق پیشہ ورانہ لوگوں کے ساتھ ہے جو خاص طور پر اس کام کے لیے مامور کیے گئے ہیں۔ اس لیے یوٹیوبرز کا یہ طرز عمل کسی صورت مناسب نہیں۔ اخلاقاً بھی اور قانوناً بھی۔

سوال: آپ کی اپنی کہانیوں میں اصلی واقعات کا کتنا فیصد حصہ شامل ہوتا ہے؟
غلام رسول زاہد: میں نے لکھنے کا آغاز ایک ناول سے کیا تھا اور اس کے بعد چپ سادھ لی تھی، پھر اشتیاق احمد مرحوم نے ’’بچوں کا اسلام‘‘ شروع کیا تو میری سرگودھا پوسٹنگ تھی۔ اشتیاق احمد نے کہا کہ آپ نے کہانی لکھنی ہے تو اس کے لیے میں نے پہلی کہانی’’مصنوعی ٹانگ‘‘ لکھی۔ وہ کہانی کچھ پولیس کی ہے، کچھ سماجی پہلو ہیں۔ اس کے بعد لکھنے لکھانے کا یہ سلسلہ چل پڑا۔ اشتیاق احمد نے تقاضا کرنا اور میں نے لکھ دینا پھر تو میں نے زیادہ تر ان واقعات اور تفتیش پر مبنی کہانیاں لکھیں جو میں نے دیکھے یا جن کا میں حصہ رہا۔ دیگر اس میں تخیل کو شامل کرکے اسے کہانی کی شکل دے دی۔ کیونکہ کہانی اور واقعات میں فرق ہوتا ہے۔ حقیقی واقعات سے میں نے بہت زیادہ مدد لی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اس میں زیادہ مقبول کہانیاں وہ ہوتی ہیں جو حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں۔ جیسے میری کہانی تھی ’’سفید گلاب‘‘ جو اُردو ڈائجسٹ میں بھی چھپی تھی پھر بعد میں بچوں کے لیے بھی لکھی کہ کس طرح سے بوڑھا والد جو بہت دولت مند ہے، اسے کینسر ہوجاتا ہے۔ اس کی ٹانگ کاٹنے کا وقت آتا ہے تو اس کےبچے لڑتے ہیں کہ ہم نے یہ ٹانگ لے کر جانی ہے۔ ہمیں اس سے بڑی محبت ہے۔ آخر میں یہ ہوتا ہےکہ جو بچہ ٹانگ لے کر جاتا ہے وہ پہلی فرصت میں اسے جھاڑیوں میں پھینک دیتا ہے۔ اس میں ایک معاشرتی پہلو بھی تھا اور تفتیش بھی تھی۔ یہ ایک حقیقی واقعہ ہے جو کراچی کا تھا، جس پر میں نے کہانی لکھی تھی۔ آپ یقین جانیں حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنی کہانیاں، ڈرامے، ناول، افسانے لکھے گئے، اس میں اگرحقیقی عنصر ہو، اس کے تکنیکی تقاضوں کو پورا کیا گیاہو یا پھر اس میں آپ نے خیال آفرینی کی ہے یا تخیل شامل کیا ہے وہ زیادہ کامیاب اور مقبول ٹھہری ہیں۔

سوال: جاسوسی یا جرائم کی کہانیوں میں قتل اور خودکشی جیسے واقعات کا تذکرہ بچوں کے لیے مناسب ہے؟
غلام رسول زاہد: اس میں بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ وہ بچے جو چھوٹی عمر کے ہیں یعنی دس سے بارہ سال تک کے، ان بچوں کے لیے جاسوسی یا جرائم کی کہانیاں مناسب نہیں۔ ان کے لیے پریوں کی، باغوں کی،شہزادے اور شہزادیوں کی، سفر کی کہانیاں مناسب ہیں۔ ان معصوموں کے لیے اسی طرح کی معصوم سی کہانیاں ہونی چاہییں۔ اس پر تو کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ٹین ایجرزکے لیے جاسوسی اور جرائم کی کہانیاں میرے خیال میں بہت مناسب ہیں۔ ہاں البتہ اس میں قتل کی منظر کشی، اعضا کی قطع وبرید وغیرہ کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔ جرائم میں سب سے سنگین جرم قتل ہے پھر ڈکیتی ہے، اغوا ہے۔ یہی بڑے بڑے جرائم شمار ہوتے ہیں اور ان ہی کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ فراڈ بھی اس میں آجاتا ہے۔ ان کی آگاہی دینی ضروری ہے، ایک تویہ کہ اس سے بچوں میں قوت مشاہدہ پیدا ہوگی وہ چیزوں کوبغور دیکھیں گے۔ برے بھلے کی پہچان ہوگی جو مجرمانہ رجحانات ہیں، ان سے وہ آشناہوں گے اور اسی طریقے سے انھیں یہ بھی پتا ہوگا کہ ان جرائم میں ملوث ہونے کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ کس طرح معاشرے پر اس کے اثرات پڑتے ہیں اور کس طرح خاندان برباد ہوتے ہیں تو جرم کو عبرت بنانا ویسے بھی ضروری ہے۔ عبرت کے معنی سبق ہی ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں نو عمر بچوں کے لیے جاسوسی یا جرائم پہ مبنی جیسے شرلاک ہومز کی کہانیاں، انسپکٹر جمشید کی کہانیاں مناسب ہیں۔

سوال: کیا اشتیاق احمد کا لکھا بین الاقوامی سطح پر بچوں کی جاسوسی ادب کی ضرورت کو پورا کرتا ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اشتیاق احمد کے ہاں کہانی کمزور ہے، آپ اس سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟
غلام رسول زاہد: آپ کی بات سے میں کچھ حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ اگر آپ اسے اس معیار تک لے جانا چاہتے ہیں جہاں اگاتھا کرسٹی کھڑی ہے تو شاید آپ کی یہ بات درست ہے لیکن آپ حیران ہوں گے کہ اشتیاق صاحب کی اپنی ناول نگاری میں ایسے تفتیشی نکتے ہوتے تھے ،ایسی باتیں ہوتی تھیں کہ گمان ہوتا تھا کہ اشتیاق صاحب نے ایک طویل عرصہ پولیس میں گزارا ہے۔ جیسے صدر کی طرف سے خصوصی جازت نامے کی مثال لے لیجیے۔ حکومت کی طرف سے ملنے والا اجازت نامہ جسے پاکر ایک پولیس والا کہیں بھی اور کسی بھی جگہ پر جاکے تلاشی لے سکتے ہیں، اب دیکھیں یہ کتنی بڑی عملی ضرورت ہے جس کا اُنھوں نے احاطہ کیا۔ جس کی اہمیت اور اصلیت ایک پولیس افسر ہی جانتا ہے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں، اس میں اُنھوں نے اپنی ایک خصوصی فورس رکھی ہوئی ہے۔ خصوصی ٹھکانے رکھے ہوئے ہیں جہاں نارمل حالات نہیں ہوتے غیر معمولی حالات ہوتے ہیں۔ ملزموں کو وہاں رکھتے ہیں اور اس طرح کے بے شمار نکات ہیں جن کا تذکرہ ان کےناولوں میں جابجا ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ صلاحیت دی ہوئی تھی، وہ جاسوسی کہانیوں کی باریکیوں کو سمجھتے تھے جیسے پولیس انگلیوں کے نشانات کیسے لیتی ہے پھر انھیں محفوظ کیسے کرتے ہیں؟ یا یہ دیکھ لیں ان کے کردار جب موقع واردات پر جاتے ہیں تو شواہد کس طرح سے اکٹھا کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا شخص لکھ ہی نہیں سکتا جو پولیس کا حصہ نہ رہا ہو اور اس کا تذکرہ میں نے خود اشتیاق صاحب سے کیا تھا کہ یا تو آپ کے والد پولیس میں ہیں یا پھر آپ کے کوئی قریبی عزیز، کیوں کہ جو باتیں آپ لکھتے ہیں وہ کوئی غیر پولیس آفیسر نہیں لکھ سکتا۔
تو میں سمجھتا ہوں کہ کہ جزوی اعتبار سے آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن کچھ ان کے کمزور پہلو بھی ہیں کیونکہ یہ ان کا ذریعہ معاش بھی تھا۔ یہی بات سعادت حسن منٹو کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔ تو یہ ہر بڑے لکھنے والے کے ساتھ ہوتا ہے لیکن یہ ہے کہ جو ان کے اچھے ناول ہیں وہ بین الاقوامی معیار پر پورے اُترتے ہیں۔

سوال: ہمارے ہاں جاسوسی ناولز یا پھر کہانیاں لکھنے کے حوالے سے صرف اشتیاق احمد مشہور ہوئے، کیا یہ ان کی مستقل مزاجی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ نمایاں ہوتے چلے گئے؟ اور باقی لوگ کیوں منظر عام پر نہ آسکے۔
غلام رسول زاہد: دیکھیں عام کہانی لکھنا آسان ہے۔ جاسوسی کہانی، اگاتھا کرسٹی لکھے گی، ابن صفی لکھے گا، آرتھر کونن ڈائل اور اشتیاق احمد لکھے گا۔ یہ نام ہمیشہ گنتی کے ہی رہیں گے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ شر لاک ہومز کس طرح کڑیوں سے کڑیاں ملاتا ہے۔ اس کا مشاہدہ اتنا تیز ہوتا ہے کہ وہ پاس آنے والے بندے کو یہ بھی بتا دیتا ہےکہ تم کہاں سے آئے ہو ۔ آپ کام کیا کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ابھی کیا واقعہ پیش آیا ہے۔ یہی اشتیاق احمد کے کردار کرتے ہیں۔ جاسوسی کہانی ہر شخص نہیں لکھ سکتا اور ہر ایک کو اسے غالباً لکھنا بھی نہیں چاہیے، لہٰذا اشتیاق احمد کے بعد کوئی بڑا نام اسی وقت ہمارے سامنے آئے گا جب کوئی ایسا دماغ اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا جیسے اللہ کی طرف سے اشتیاق صاحب کو دیا گیا تھا۔ وہ سراہے جانے کے حقدار ہیں۔ جب ہماری ملاقاتیں شروع ہوئیں تو میں ان سے کہانیوں اور ناول کی جزئیات کے بارے میں بڑے سوالات کیا کرتا تھا اور اکثر سوالوں کے جواب ان کے پاس نہیں ہوتے تھے کیوںکہ یہ چیزیں اللہ کی طرف سے انھیں عطا ہوئی تھیں۔ جاسوسی کہانی اور عام کہانی میں فرق ہے۔ عام کہانی لکھنا آسان ہے۔ یہ بات نہیں کہ میں ان کی اہمیت کم کررہا ہوں۔ سماجی کہانی، سبق آموز کہانی لکھنا بھی بڑا مشکل ہے۔ مزاحیہ کہانی لکھنا تو اور بھی زیادہ مشکل ہے، لیکن جاسوسی کہانی ایک خاص قسم کا شخص ہی لکھ سکتا ہے۔ ایک خاص طرح کا مصنف ہی اس کا مردِ میدان بن سکتا ہے۔
سوال: گزشتہ ایک عرصے سے اشتیاق احمد پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے فرقہ ورانہ عناصر کو پروان چڑھایا اور ادب میں مذہب کو شامل کرکے ادب کی روح مجروح کی۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
غلام رسول زاہد: دیکھیں اشتیاق احمد صاحب نے جو باطل مذاہب ہیں جیسے عیسائیت جو موجودہ شکل میں تحریف شدہ ہے اس پر تو لکھا ہے۔ نام لے کر خوب تنقید کی ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ہمارے تمام مکاتب فکر ہمارے تمام علما اور جو قدما ہیں ان سب نے اس پر لکھا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی خاص فرقے کا نام لے کر اُنھوں نے اسے حرفِ تنقید بنایا ہو، وہ جن عقائد کو درست سمجھتےتھے ان کا ذکر البتہ ان کی تحریروں میں ہمیں نظر آتا ہے اور یہ چیزیں قرآن اور سنت سے مطابقت رکھتی ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اُنھوں نے مسلمانوں کےکسی خاص فرقے کو نشانہ بنایا اور فرقہ واریت کو پروان چڑھایا ہے کیونکہ ان کے سارا محور قرآن وسنت ہی ہے۔ البتہ ان کے نقطۂ نظر سے آپ دلائل کے ساتھ اختلاف کرسکتے ہیںلیکن ان کا خلوص شک وشبے سے بالاتر ہے۔
ہمارا مذہب اسلام تو بڑا جامع اور ہمہ گیر ہے۔اس لیے ہماری سیاست ہو، تعلیم ہو یا پھر معیشت اس میں ہم اسلام کے بنیادی اصولوں کو دیکھتے ہیں۔ اسی طرح سوال یہ ہے کہ ہم ادب کو اس سے خارج کیوں کریں؟ اگر خارج کریں گے تو پھر اقبال کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ حالی کا لکھا دریا برد کردیں گے؟ اُردو کے عظیم شاعر غالب کے ہاں بھی آپ کو اسلامی حوالے مل جائیں گے۔
اسی طرح اشتیاق احمد نے جو فکشن لکھا، اس میں دینی اقدار، ہماری روایت کا حصہ ہے اس کی بھی جھلک نظر آئے گی تو یہ کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔

سوال: والدین، اساتذہ غرض پورے معاشرے کو یہ شکوہ ہے کہ بچے تو بچے بڑے بھی مطالعے سے دور ہوگئے ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اور اس کا سدباب کیسے ممکن ہے؟
غلام رسول زاہد: بچوں کے مطالعے سے دور ہونے کی اصل ذمے داری بڑوں کی ہے۔ بڑوں کو اس میں دلچسپی لینی چاہیے۔ بچو ں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ اس کے کئی طریقے ہیں۔ بڑوں کا ہم ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد ماں، باپ ہوتے ہیں یا اساتذہ کہ وہ ان کو راغب کریں۔ اچھی اچھی کتابیں لاکر دیں۔ دوسرا سوال اسی میں سے پیدا ہوتا ہے کہ وہ پڑھی جانے والی کہانی یا تحریر اتنی زوردار ہو کہ بچہ اس کے سحر میں گرفتار ہوجائے۔ یہاں سے ہمارا یعنی لکھنے والوں کا عمل دخل شروع ہوجاتا ہے کہ لکھنے والا کس طرح کی کتاب لکھ رہا ہے؟ اس کے اندر زور ہے یا نہیں؟ یا کیا وہ ایسی کتاب ہے جو بحیثیت ماں باپ یا بحیثیت اساتذہ آپ اپنے بچوں کے لیے تجویز کریں گے۔ جس طرح میں نے اشتیاق صاحب سے کہا کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ آپ کی کتابیں مشہور ہوئیں۔ والدین اپنےبچے کو اشتیاق احمد کی کتاب دیتے ہوئے اس خدشے کا شکار نہیں ہوتے کہ اس کے اندر کوئی فضول بات ہوگی یا پھر اخلاق سے گرا ہوا کوئی مواد ہوگا۔ اسی طرح دین یا وطن کے خلاف بھی کوئی اشارہ نہیں ملے گا، لہٰذا بچوں کے لیے آپ کی کتابیں تجویز کرنا ہر لحاظ سے محفوظ ہے۔
ایسی کتابیں لکھنے والے مصنّفین ہمیں چاہییں۔ ایسی تحریریں بھی چاہییں۔ اس میں شوقیہ لکھنے والے نہیں چل سکتے اور جو ایسی کتابیں لکھے گا وہ خود بخود بچوں میں مقبول ہوجائے گا۔
آپ کے دوسرے سوال کا جواب بڑوں کو کون سکھائے گا کہ آپ نے پڑھنا ہے اور یہ وہ بڑے ہیں جو اپنے بچپن میں پڑھ چکے ہیں اور اب انھوں نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ بڑوں کے نہ پڑھنے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ گھر میں جب بچہ اپنے باپ کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ خود بخود سگریٹ سلگا لیتا ہے۔ ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ والد صاحب بانگ درا لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بال جبریل کا مطالعہ کررہے ہیں۔ کیمیائے سعادت، مقدمہ ابن خلدون پڑھ رہے ہیں تو انھیں دیکھ کر ہمیں تو ویسے ہی بغیر ان کے کچھ کہےشوق پیدا ہوجاتا تھا۔ ہم نے تو کھیلنا ہی کتابوں کے ساتھ تھا، لہٰذا گھروں میں جو کلچر بنے گا وہ بڑوں کے مطالعے سے بنے گا تو بڑوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پڑھنے والی عادتیں دوبارہ استوار کریں۔ اس سوشل میڈیا سے نکلیں اور کتابیں پڑھیں، اپنے لیول کی کوئی بھی کتاب پڑھیں۔ آپ نے جو سیکھنا ہے سیکھ لیا لیکن اب آپ چاہتے ہیں کہ اچھی چیزیں آپ کے بچوں کے اندر بھی منتقل ہوں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مطالعے کو بھی جاری رکھیں اور بچوں کو بھی مطالعے کی طرف راغب کریں۔
میں پولیس سروس میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ کرائم مسلسل اوپر سے اوپر جارہا ہے۔ اس طرح کے جرائم وقوع پذیر ہو رہے ہیں جن کا پہلے تصور بھی ممکن نہیں تھا اور اس عمر کے لوگ کرائم کر رہے ہیں جو چند برس قبل سوچا بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سوشل میڈیا اور موبائل کی وجہ سے ایسے بھیانک جرائم شروع ہوگئے ہیں جن کو سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ منظر عام پر نہیں آتیں۔ ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے کتاب۔ جب آپ کتاب پڑھنا شروع کریں گے تو یہ سارے مسائل حل کی طرف جاتے ہوئے نظر آئیں گے۔
دیکھیں میں آپ کو چھوٹی سے مثال دوں۔ آپ کسی موضوع پر کوئی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ معلومات آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں موبائل کے ذریعے یا کلپ کے ذریعے۔ وہ معلومات جھلکیوں کی صورت میں ہوگی۔ دو، تین منٹ میں آپ نے بات سن لی، ویڈیو چلا کر دیکھ لی۔ اس کے مقابلے میں آپ دیکھیں کہ آپ کتاب پڑھ رہے ہیں۔ اس کے شروع میں مقدمہ ہے، اس کا دیپاچہ ہے، اس کے ابواب ہیں، جس میں اس کے تمام موضوعات کا احاطہ کیا گیاہے، پھر آخر میں جب آپ اس کتاب کو ختم کرتے ہیں تو اس موضوع پر پوری طرح آپ کی گرفت ہوچکی ہوتی ہے۔ اس کے پس منظر سے، اس کے پیش منظر سے، اس کے سیاق وسباق سے ہر چیز سے آپ واقف ہوچکے ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ویڈیو کی صورت میں جھلکیوں سے آپ دین سیکھتے ہیں۔ جھلکیوں سے آپ تاریخ سیکھتے ہیں اور جب آپ جھلکیوں سے اپنی تہذیب سیکھیں گے، معلومات حاصل کریں گے تو سب کچھ ادھورا ہی معلوم ہوپائے گا، زیادہ چانسز ہوں گے کہ وہ معلومات بھی غلط ہوں گی۔ نامکمل علم زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس لیے جب بڑے کتاب پڑھیں گے۔ بچے کتاب پڑھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ معاشرے میں سدھار اور ٹھہراؤ آئے گا۔پہلے پیسوں کے لیے کوئی کسی کا گلہ نہیں کاٹتا تھا ۔ لوگ ایک دوسرے کا خیال کرتے تھے۔ میں بحیثیت پولیس آفیسر بڑے اعتماد سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ کتاب ہمارے مسائل کا حل ہے۔

سوال: پولیس کے حوالے سے لوگوں کا مجموعی تاثر ٹھیک نہیں ہے۔ خصوصاً صاحب مطالعہ پولیس والا شاذ ونادر ہی نظر آتا ہے۔ کیا پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنے لوگوں میں مطالعے کا رجحان بڑھانے کے حوالے سے اقدامات کرتا ہے اور آپ کا کیا خیال ہے کہ ہمارے ہاں تھانوں میں مختصر لائبریریاں ہونی چاہییں؟
غلام رسول زاہد: انگریزوں نے جب یہ نظام لاگو کیا تو ظاہر ہے اس وقت اتنی کتابیں میسر نہیں تھیں۔ اس وقت بھی قاعدہ بنایا گیا تھا کہ ہر پولیس آفس کے اندر ایک لائبریری ہوگی، اس کا تصور بالکل موجود ہے اور جب ہم خود بھی پولیس کے دفاتر کی انسپکشن کرنے جاتے ہیں، تو اس چیز کو لازمی بناتے ہیں کہ وہاں لائبریری ہو،مگر وہ لائبریری کیا ہوتی ہے بھلا؟ وہاں لیگل ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں کی کتابیں رکھی ہوتی ہیں، اسی طرح جو لازمی کتابیں ہیں جیسے ہماری تعزیرات پاکستان، پولیس رولز، قانون شہادت، وہ رکھی ہوئی مل جائیں گی۔ انسان کی ادبی ضرورت کو پورا کرتی ہوئی کتب آپ کو نہیں ملیں گی لیکن بہت سی روشن مثالیں بھی ہیں۔سہالہ کالج کی لائبریری بہت وسیع ہے۔اسپیشل برانچ کی لائبریری بہت بڑے ذخیرۂ کتب کی حامل ہے۔
میں نے اپنی ذاتی حیثیت میں کوشش کی ہے کہ میں جہاں بھی گیا ہوں ، وہاں لائبریری قائم کروں۔ ابھی جہاں میری آخری پوسٹنگ تھی وہاں بھی میں لائبریری قائم کرکے آیا ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ پولیس اسٹیشنز میں بھی لائبریر ی موجود ہو۔
اب میں آپ کے دوسرے سوال کی طرف آتا ہوں کہ پولیس والوں کا جو رویہ جو ہے وہ بڑی لمبی داستان ہے۔ یہ کہانی ۱۸۶۱ء سے شروع ہوتی ہے اور آج تک یہ کہانی جاری ہے کہ پولیس ایسی کیوں ہے؟ پولیس کا رویہ ایسا کیوں ہے؟ ایک وقت تھا کہ پولیس کے پاس اتنا وقت ہوتا تھا کہ پولیس آفیسر دو، دو، تین، تین دن کے لیے دوسرے پولیس اسٹیشن وزٹ کے لیے جاتے تھے۔ انسپکشن کے لیے وہاں ٹھیرتے تھے۔ وہاں وہ ساری کارروائی دیکھا کرتے تھے۔ اب تو وقت ہی نہیں ہے۔ اسپورٹس کے لیے وقت نہیں ہے۔ پولیس کی لازمی پریڈ ہوتی ہے، اس کا وقت نہیں ہے۔ کتاب پڑھنا تو بہت ہی پیچھے رہ گیا ہے۔ وقت کی کمی کا یہ اثر پولیس والوں پر اور خاص طور پر جو بڑے شہروں کی پولیس ہے اس پر پڑا ہے۔ اُن کے پاس ان چیزوں کے لیے خاص طور پر دفاتر کے اندر تو بالکل وقت نہیں ہے کہ ان کو کسی جگہ بٹھا کہ اسٹڈی سرکل قائم کیا جائے۔ اس کے لیے پھر ہمارے پاس جو راستہ بچتاہے، وہ ہے ہماری ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کا۔ جب میں خود پنجاب پولیس کالج سہالہ میں تھا تو میں نے وہاں کی لائبریری سے استفادہ کیا تھا۔ وہ کالج ۱۹۵۹ء میں قائم ہوا تھا۔ اس میں نادر کتابیں موجود ہیں۔ ابتدا میں طلبہ کو اس کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ مختلف کورسز ہوتے ہیں۔ ان کورسز کی وجہ سے طلبہ کو وہاں لائبریری میں لے کر جاتے ہیں۔ کتابوں پر تبصرے کرواتے ہیں، جس کے ذریعے پولیس کے نوجوانوں کو مطالعے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ پولیس والوں کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اب دیکھیں پولیس افسر کو ہر طرح کے حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔ واردات تو پیٹرول پمپ پر بھی ہوگی، بینک میں بھی ہوگی، اسکول میں بھی ہوگی، شاہراہ پر بھی ہوگی، فیکٹری کے اندر بھی، تقریباً ہر جگہ واردات کا امکان ہے۔ آپ وہاں تفتیش کے لیے جائیں تو آپ کو اس کی معلومات ہی نہیں ہے تو یقیناً آپ کی تفتیش ناقص ہوگی۔ اس لیے پولیس آفیسر کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے۔ باقی یہ کہ پولیس کا رویہ ایسا کیوں ہے؟ اس کے لیے الگ نشست کرنے کی ضرورت ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس وقت صورت حال بالکل تسلی بخش نہیں ہے۔ میں آپ کی بات کی تائید کرتا ہوں لیکن اس کا ایک پورا تاریخی پس منظر ہے۔ جس طرح میں نے کہا کہ یہ ڈیڑھ سو سال کا backlogہے۔ ڈیڑھ سو سال کیا…..اس سے بھی زیادہ بن جاتے ہیں۔ ڈیڑھ سو سال تو ہمارے ۲۰۱۶ء میں پورے ہوگئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہانی انگریزوں کے نو آبادیاتی دور سے شروع ہوتی ہے۔