ایک جھوٹ

وحیدہ نسیم

بات بہت دن پہلے کی ہے مگر اتنی پرانی بھی نہیں آپ تاریخ کی کتاب میں اس کو ڈھونڈیں۔ یہی چار پانچ سال پہلے کا ذکر ہے کہ ایک روز دوپہر کو میں سو کر اٹھی۔ کالج میں چھٹی تھی۔ نہ لڑکیوں کو پڑھانا تھا نہ پھول پتوں اور جانوروں پر طرح طرح کے تجربات کروانا تھے۔ میں اپنے بستر پر سے اٹھی ، برساتی سڑی ہوئی گرمی پڑ رہی تھی۔ مینہ برس چکا تھا مگر اب بھی آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ تولیہ لے کر منہ دھونے کے ارادے سے غسل خانے کی طرف چلی تھی کہ دفعتاً ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور میں نے لپک کر رسیور اٹھا لیا۔
’’ ہلو؟‘‘ میں نے نرم لہجہ میں کہا۔’’ ٹر ٹر ٹر ٹرٹرو۔‘‘ سی آواز آئی:’’ مجھے وحیدہ نسیم سے بات کرنا ہے؟‘‘
’’ جی میں نسیم بول رہی ہوں۔ فرمائیے، آپ کون ہیں؟‘‘
’’ ٹر ٹر ٹر جی میں آل ڈرینج سوشل سوسائٹی کا سیکرٹری آپ سے مخاطب ہوں۔ ہمارے یہاں ایک بہت بڑا مشاعرہ ہو رہا ہے جس کی صدارت جناب مینڈک الدولہ المتخلص غوک نالوی فرمائیں گے۔ مینڈکوں کی بستی میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا مشاعرہ ہے جس میں نالیوں، موریوں، کیچڑ اور کوئوں کے بڑے بڑے فنکار حصہ لے رہے ہیں، آپ سے شرکت کی درخواست ہے؟‘‘ میرا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔خدایا! مینڈکوں نے بھی مشاعرہ منعقد کیا ہے؟ خدا رحم کرے ہماری اور ان کی دونوں کی حالت پر!
’’ لیکن یہ مشاعرہ۔۔۔ مشاعرہ میں نے تو پہلے کبھی سنا ہی نہیں۔‘‘ میں نے گھبرا کر کہا۔
’’ نہیں سنا! تعجب ہے ،برسات کی اندھیری راتوں میں اکثر منعقد ہوتا رہتا ہے۔لیکن ہم نے کبھی آپ کو زحمت نہیں دی۔ مگر اب یہ سالانہ تقریب ہے اور شاندار پیمانے پر منائی جا رہی ہے اس لیے آپ سے شرکت کی درخواست ہے۔ امید ہے کہ آپ سامعین کو مایوس نہ فرمائیں گی۔‘‘
’’ لیکن۔۔۔ لیکن کب اور کہاں؟ میں کیسے پہنچوں گی؟ یعنی مجھے معاف ہی کر دیجیے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ معاف کرنے کا تو سوال ہی نہیں۔ ہم لوگو ںسے آپ سالہا سال سے واقف ہیں اور سچ پوچھیے تو سائنس کی ڈگری آپ نے ہمارے ہی جسموں کی چیر پھاڑ کی مدد سے حاصل کی۔‘‘
اس نے احسان جتاتے ہوئے کہا اور مجھ کو مجبوراً شرکت کا وعدہ کرنا پڑا۔ نہ دن کا تعین تھا نہ وقت معلوم تھا مگر مشاعرے میں شرکت لازمی تھی۔ بہر کیف دن جوں توں کٹا، رات کو کھانے کے بعد جوں ہی میں نے صحن میں چہل قدمی کے ارادے سے قدم رکھا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ کیلے کے بڑے بڑے پتوں سے بنی ہوئی ایک جیپ کار کھڑی ہے ،جس کو ایک نہایت بد صورت کالی کھال والا مینڈک اپنے اگلے پنجوں سے ڈرائیور کر رہا ہے۔ قریب تھا کہ متلی ہو جاتی دفعتاً مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں سکڑ رہی ہوں، خدایا یہ کیا؟ دیکھتے دیکھتے میرا قد ساڑھے پانچ فٹ کے بجائے صرف ساڑھے پانچ انچ رہ گیا اور میں غیر ارادی طور پر کیلے کے پتوں والی جیپ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ برسات کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پائیں باغ میں ایک ویران گوشے میں مشاعرے کا پنڈال سجا تھا۔ نرم نرم گھاس پر بیسیوں مینڈک اور مینڈکیاں قرینے سے قطار اندر قطار بیٹھے تھے۔ مشاعرے کے کارکنوں اور سیکرٹریوں کے گلے میں گھاس کا ایک ایک سبز پتا لٹک رہا تھا۔ یہ مشاعرہ گیلی مٹی کے ایک چھوٹے سے چبوترے پر ہو رہا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں ننھے منے جگنو چمک کر ہال کو منور کر رہے تھے۔ اسٹیج پر پانچ یا چھ جگنو بطور خاص رکھے ہوئے تھے؛ تاکہ ان کی روشنی میں شعرا اپنا کلام پڑھ سکیں۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہر چیز کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ اپنے ساتھ کے تمام شاعروں کو وہاں موجود پایا۔ پہچان کر بات کرنا چاہی مگر افسوس کسی کو نہ پہچانا۔ اسٹیج کے بیچوں بیچ ایک سوکھے درخت کی باریک سی ٹہنی رکھی تھی جس پر ایک اور صرف ایک سبز پتا لگا ہوا تھا۔ یہ بڑی دیر بعد میری سمجھ میں آیا کہ یہ مائیکرو فون ہے۔ خیر خدا خدا کر کے مشاعرہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے مقامی شعرا نے اپنا کلام سنایا جس میں نوک نالوی، نوکچہ موردی، گندا گردی اور ٹر ٹر بانوی قابل ذکر ہیں ، اس کے بعد مہمان شعرا کا نمبر آ گیا اور میں سنی سنائی پرانی غزلوں سے اکتا کر اونگھنے لگی یہاں تک کہ میری پلکیں جھپکنے لگیں۔ دفعتاً میرا نام پکارا گیا اور میں اسٹیج پر پہنچی۔
’’پکڑو پکڑو۔۔۔ دوڑو دوڑو۔۔۔ جانے نہ پائے۔۔۔ ہاں ہاں یہی ہے۔‘‘ کا ایک غل اٹھا۔ یقینا یہ شور اس سے بالکل مختلف تھا جو مینڈک ٹرا ٹرا کے داد دینے کے دوران میں مچا رہے تھے۔ میں عالم پریشانی میں مائیک کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ غزل کا پہلا مصرع بھی عرض نہ کرنے پائی تھی کہ دفعتاً اپنے شانوں پر دو گیلے گیلے کالے جھلی دار ہاتھ محسوس ہوئے۔ پلٹ کر دیکھا تو دو مینڈکیاں اپنی گرفت میں مجھے لیے کھڑی ہیں۔ صدر مشاعرہ، مینڈک الدولہ المتخلص نوک نالوی۔ اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے درد ناک لہجے میں سامعین کو مخاطب کر کے کہا:
’’ خواتین و حضرات بہت دنوں کے بعد ہماری قوم نے ایک بڑے مینڈک دشمن عنصر کو پکڑ لیا ہے۔ یہ ہمیشہ مینڈک قوم کے لیے تخریبی کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔ محترمہ نے جب سے کالج میں داخلہ لیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک سائنس اور حیوانیات کے مضمون کا بہانہ کر کے انھوں نے بیسیوں بلکہ سینکڑوں مینڈک قتل کر ڈالے۔ ان کی تجربہ گاہوں میں ہمارے لاکھوں ، بھائی بند ہفتوں قید رہے۔ اس کے بعد ان کو بے ہوشی کی دوا دے کر یہ چیر پھاڑ کرتی رہی ہیں۔ بھائیو! وہ زمانہ انگریزی راج کا تھا، ہم غلام تھے اس لیے ان کے ظلم و ستم سہتے رہے ، چھ سال یوں ہی گزر گئے اور مینڈک قوم ہر قسم کا تشدد برداشت کرتی رہی۔ یہاں تک کہ مقتولین اور شہیدوں کی لاشیں تک ان کے ورثا کو نہیں ملتی تھیں۔ یہ تشدد اور بربریت دوسری لڑکیوں کو سائنس کے بہانے سکھایا کرتی ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو چند دن میں ہم دنیا سے مٹ جائیں گے۔ ہمارے ہزاروں گھرانے بے چراغ ہو گئے ، لاکھوں کے سہاگ لٹ گئے اور کتنے جوان مینڈکوں نے دنیا دیکھنے سے پہلے جام شہادت پیا۔۔۔‘‘ کہتے کہتے غوک بہادر کی آواز میں رقت پیدا ہو گئی۔ انھوں نے میری طرف حقارت و نفرت سے دیکھا اور کہا:
’’ دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے؟‘‘
مجمع سے آہ و بکا کا شور بلند ہوا اور ساتھ ہی مجھ کو گرفتار کے موری کے ایک سوراخ میں قید کر دیا گیا۔ نہ شعر یاد تھے نہ شاعری، ایک قدیم شعر البتہ رہ رہ کر دماغ میں پھر رہا تھا؎

گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل

کہاں کی رباعی کہاں کی غزل چند دنوں کے بعد مجھے مینڈکوں کی اسپیشل عدالت میں پیش کیا گیا۔ میرا جرم سب کو معلوم تھا اور میں اس کا اقبال کر چکی تھی۔ عدالت کے ہر فرد کو شہید مینڈکوں سے ہمدردی تھی، میرے خلاف فیصلہ سنا دیا گیا کہ مجھے پانچ سال تک قید با مشقت کی سزا مٹی کے تنگ سوراخ میں جھیلنا پڑے گی، اس کے بعد مجھ کو سخت پتھروں پر لٹا کر مار ڈالا جائے گا یا دوسرے الفاظ میں مینڈک بغیر مجھ کو بے ہوش کیے ہوئے ویسے ہی میرا ’’ ڈائی سیکشن‘‘ کریں جیسے کہ میں ان کا کیا کرتی تھی۔ سنگ آمد سخت آمد۔ میں مینڈکوں کی دنیا میں کھڑی ہوئی یکا و تنہا اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہی تھی۔
مجھے تو یاد بھی نہیں کہ پانچ سال کی سزائے قید میں نے جھیلی یا نہیں بہر کیف وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب مجھ کو ایک چھوٹے سے سخت پتھر کے چبوترے پر لٹا دیا گیا۔ کسی مینڈک کے ہاتھ میں قینچی تھی، کسی کے ہاتھ میں چھوٹا سا تیز چاقو۔ کوئی تیز نوکدار سوئی لیے آگے بڑھ رہا تھا، کوئی چمٹے سے میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ موت آنکھوں کے سامنے منڈلا رہی تھی، دنیا تاریک ہو رہی تھی۔ دفعتاً دماغ میں ایک خیال آیا ، امید کی ہلکی سی کرن نظر آئی میں نے دبنگ آواز میں کہا:’’ ٹھہرئیے!‘‘
مینڈکوں کے گروہ نے مجھے غور سے دیکھا اور میں نے نہایت اخلاص سے کہا:
’’ بھائیو اور بہنو! آپ میرے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ میں نے بیسیوں مینڈکوں کا خون ضرور کیا ہے لیکن اس واسطے کہ مجھے آپ لوگوں سے محبت تھی۔ برسات میں آپ کے رسیلے گیتوں کو میں بڑے شوق سے سنا کرتی تھی۔ آپ کی ڈھیلی ڈھیلی سیاہ کھال جس پر بے شمارے تارے بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں، مجھے بہت پسند ہے۔ آپ کی سنہری آنکھیں ہمیشہ میری نظروں کے سامنے رہیں۔ میں نے چیر پھاڑ کر کے صرف یہی معلوم کرنا چاہا کہ کوئی ایسی دوا تلاش کروں جو آپ لوگوں کو صدیوں زندہ رکھ سکے اور مینڈکوں کو نزلے زکام کی شکایت سے بچا سکے۔‘‘
’’اف یہ بات ہے؟‘‘مینڈکوں نے میرے قتل سے توبہ کی لیکن موت کی سزا کے احکام بغیر بادشاہ مینڈک کے حکم کے ٹل نہیں سکتے تھے اس لیے مجھے دوبارہ قید کر دیا گیا۔
تھوڑے دنوں بعد میں بادشاہ کے رو برو حاضر کی گئی۔ بادشاہ سلامت نہایت تمکنت سے سوکھے پتوں کا تاج پہنے’’ دریائی محل‘‘ میں ایک اینٹ پر بیٹھے تھے۔ میں ان کی تعظیم بجا لائی۔
’’مینڈکوں نے بتایا کہ’’ یہ نہایت رحم دل انسان ہیں۔ انھوں نے ہم لوگوں کو چیر پھاڑ کر ایک ایسی دوا ایجاد کرلی ہے جس سے مینڈک سو سال تک زندہ رہ سکیں۔ جہاں پناہ شاہ غوک اس کام میں انھوں نے بارہ سال تحقیق کی ہے اور خدا خدا کر کے اب یہ اپنے اعلیٰ انسانی مقصد میں کامیاب ہو گئی

ہیں۔ ایسی حالت میں محترمہ کوسزائے موت اور ڈائی سیکشن دینا اپنی قوم و ملت کا خون کرنا ہوگا؟‘‘
مجھے بحکم سرکار عزت سے رہا کیا گیا اور دوسرے دن مجھے موری کے راستے رخصت کیا گیا۔ اس دن ہرطرف میرے لیے زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ مجھے بادشاہ مینڈک کی خاص موٹر میں جس کو دو مینڈک خاص وردی میں چلا رہے تھے واپس لایا گیا۔ لیکن رہائی کی شرط یہی تھی کہ میں ایک ہفتے کے اندر آب حیات اور نزلے سے بچنے کی دوا مینڈکوں کے حوالے کر دوں اور یہی میرا جذبہ رہائی تھا۔ خدا خدا کر کے پائیں باغ آیا اور میں خوشی سے اچھل پڑی۔ فون کی گھنٹی اب تک بج رہی تھی میں نے اپنے کمرے میں پہنچ کر رسیور اٹھا لیا۔
’’ہلو؟‘‘ میں نے نرمی سے پوچھا۔’’ہلو! میں احمر دہلوی بات کر رہا ہوں ، محترمہ آپ کے یہاں تو کوئی فون اٹھاتا ہی نہیں۔‘‘
’’ جی۔۔۔ فون۔۔۔ جی حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔‘‘
’’ حالات۔۔۔ خدا خیر کرے۔۔۔ خیریت تو ہے نا؟‘‘ احمر دہلوی نے گھبرا کر کہا۔
’’ جی۔۔۔ بالکل۔۔۔ بالکل فرمائیے۔‘‘
’’ شام کو کیڑک ہال کے مشاعرے میں تشریف لا رہی ہیں نا؟ میں نے سوچا کہ جناب کی یاد دہانی کر دوں۔‘‘
’’ جی آ تو جائوں گی مگر مشاعرے کے بعد۔۔۔؟‘‘میں نے گھبرا کر پوچھا، گرفتاری اور قتل کے سارے منظر میری نظروں میں گھوم گئے۔
’’ مشاعرے کے بعد؟‘‘ انھوں نے تعجب سے کہا:’’ ہاں، ہاں یہی چائے پانی اور اس کے بعد واپسی میں آپ کو موٹر پر پہنچا دیا جائے گا۔ یہ تو لازمی ہے آپ آنے جانے کی فکر نہ کریں۔‘‘
میری آنکھوں میں کیلوں کے پتوں کی جیپ گاڑی پھر گئی لیکن احمر دہلوی سے کچھ نہ کہہ سکی۔ مجبوراً خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔

٭٭٭