حفاظت

عزیز اثری

ککو بلا جب مسکراتا تو ساری دنیا مسکرا اٹھتی۔ کائنات پر ٹھنڈی چاندنی اور خوب صورت پھول برس پڑتے ہیں۔ خوشی کی سیٹیاں بجنے لگتی ہیں اور میں جو عرصہ سے بیمار اور دکھی ہوں اپنی ساری بیماری اور دکھ بھول جاتا ہوں ۔ننھے بچے کی مسکراہٹ میں کتنی دلآویزی، کتنی مٹھاس، کتنا جادو بھرا ہوتا ہے۔ جو کام ڈاکٹروں کے علاج اور ٹیکے نہیں کر سکتے وہ ککو بلا اپنی معمولی سی مسکراٹ سے کر دیتا ہے۔ میری روح کے تمام زخم دھل جاتے ہیں۔ زندگی میں بھرا ہوا دکھوں کا زہر نچڑ جاتا ہے اور میں اس فضا میں خوش صحت مند ہو کر گانے لگتا ہوں۔
خوشی کے یہ انمول لمحے صرف مجھ کو ہی نصیب نہیں ہوتے بلکہ ننھا ڈیڑھ سالہ ککو بلا انھیں گھر بھر میں بانٹتا ہے۔ ہر شخص کو برابر کا حصہ دیتا ہے۔ اپنی ماں، اپنی موسیوں، اپنے باپ، چچا اور ماموں، سب کو معصوم مسکراہٹوں سے نہال کر دیتا ہے۔ یہ اس کی موسیاں ہیں جو اسے اٹھائے اٹھائے پھرتی ہیں، یہ اس کے چچا ہیں جو اسے نت نئی باتیں اور اشارے سمجھاتے ہیں، یہ اس کی ماں کہ دنیا بھر کا پیار’’ ساری مامتا‘‘ آنکھوں میں لیے ننھے کے ہاتھ پاؤں چومتی اور اسے سینے سے لگا رہی ہے۔ وہ منہ بنا بنا کر اس سے پوچھتی ہے۔
’’ننھے موٹر کیسے چلتی ہے؟‘‘ ننھا پتلے پتلے ہونٹوں سے زبان اڑا کر موٹر چلنے کی آواز نکالتا ہے۔
’’ اچھا یہ بتاؤ کہ مرغا کیسے اذان دیتا ہے؟‘‘ننھا مرغے ایسی آواز پیدا کرتا ہے۔ پھر اس کا چچا، اس کا ماموں اسے گھیر لیتے ہیں۔’’ککو بتاؤ بھلا باجی کیسے ناچتی ہے؟ ماموں کس طرح کھانا کھاتے ہیں؟‘‘ اور ننھا ککو سب کو جواب آواز نکال کر منہ بنا کر اور ہاتھ نچا کر دیتا ہے اور سب لوگ کھل کھلا کر ہنستے ہیں۔ خوشیوں کے مینہ برسنے لگتے ہیں۔ پھر ننھے کے ابا آ جاتے ہیں۔ دوپہر کی جلتی ہوئی گرمی میں نہر کی پٹر یوں پر کئی گھنٹے پیمائش کرنے کے بعد اس کا ابا جب لُوسے جھلسا ہوا بے حد تھکا ہوا بے زار اور اداس سا گھر میں آتا ہے تو ککو اپنا ننھا سا بازو اس کی طرف پھیلا کر اسے اپنی طرف بلاتا ہے۔ اس سے اس کے ابا کی ساری گرمی، بے زاری اور تھکن دور ہو جاتی ہے۔ وہ ہنستا ہوا ککو کے پاس جاتا اور اس سے بالکل بچوں کی طرح باتیں کرنے لگتا ہے۔
بڑ ے بڑے آدمی بچوں سے باتیں کرتے ہوئے بچے بن جاتے ہیں۔ بچوں کی طرح بولتے، آوازیں نکالتے اور حرکتیں کرتے ہیں اور اپنے ننھے بھانجے سے باتیں کرتے وقت میں بھی بچہ بن جاتا ہوں۔ اس کا ابا بھی اور میرا چھوٹا بھائی بھی، جس وقت ککو ہم سب کو دریا دلی سے مسکراہٹیں خیرات کرتا ہے، جب ہم بچوں کی طرح کھل کھلا کر ہنستے مسکراتے ہیں تو کبھی کبھی اس وقت ایک گہری سوچ مجھے گھیر لیتی ہے۔ میرے دل میں کئی یادیں جاگتی ہیں اور میرے ذہن میں کئی واقعات تیرنے لگتے ہیں۔
یہ ہمارا گاؤں ہے جہاں رس بھرے بیروں سے لدی پھندی اور زمین تک جھکی ہوئی بیریوں کے جھنڈ ہیں۔ چھوٹے سیاہ اور لمبے سفید شہتوت کے درخت ہیں۔ جہاں میلوں تک آم اور جامن پھیلے ہوئے ہیں۔ جہاں قدم قدم پر بے حد ٹھنڈے اور میٹھے کنویں ہیں اور ان پر بوڑھے اور ٹھنڈے بڑ کے پھیلے ہوئے درخت سایہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ بے پروائی سے مستانہ وار بہتا ہوا راوی ہے، جس کے کنارے ہم صبح شام سیر کے لیے نکل آتے تھے۔ یہ بچپن کا افضل ہے، لطیف، عزیز اور دوسرے دوست ہیں جو راوی کے کنارے آموں کے جنڈ میں اور جامنوں کے نیچے بے فکری سے پھر رہے ہیں۔ ہر طرف مسکراہٹیں اور خوشیاں بکھیرتے ہوئے اچھل کود کر رہے ہیں۔ ہر صبح ہم ٹھاٹھیں مارتے ہوئے راوی پر ہنستے، اس میں کنکریاں پھینکتے، اس کی شوخ لہروں کو چھیڑتے، ریتلے کیچڑ میں جان بوجھ کر پھنستے اور قہقہے لگاتے پھرتے۔ راتوں کو کھلی حسین چاندنی میں گاؤں کی گلیوں اور کھیتوں میں آنکھ مچولی کھیلتے، ناچتے ، گاتے، شور مچاتے ساون کی بوچھاڑ میں بھیگتے ہوئے جامن کے درختوں سے پتھر مار مار کر جامن گراتے اور کھاتے، درختوں پر چڑھ کر آم توڑتے او رہرے ہرے توتے پکڑتے۔
اور پھر ہمارے شہر کا یہ رونق محلہ ہے۔ جہاں قریب ہی ریلوے پٹری کے ساتھ ایک ندی بہتی ہے۔ دن بھر ہم ندی میں کودتے نہاتے اور تیرتے رہتے۔ یہ قریب ہی لوکاٹ ، ناشپاتی اور امرودوں کے بڑے بڑے باغ ہیں، یہاں سے پکے ہوئے لوکاٹ ، ناشپاتیاں اور امرود مالیوں سے چھپ چھپ کر توڑتے، ان سے جیبیں بھر لیتے اور سارا راستہ کھاتے اور بھاگتے جاتے۔ یہ صدیق اور مظفر ہیں جو ہر وقت نئے نئے باغوں کا پتا چلاتے اور وہاں پہنچنے کی تراکیب بناتے۔ یہ میرا بڑا بھائی افضل ہے جو باغوں میں چھاپا مارنے کی ساری مہمیں کرتا ہے۔ یہ بچپن کے ساتھی اور گہرے دوست تھے، ایک دوسرے سے پیار کرنے والے اور یہ بچپن کے دن تھے، بے فکری، خوشیوں اور معصومیت کے سنہرے دن۔
بڑا بھائی افضل کسی شادی کے موقع پر ڈھولک پر گاتی ہوئی عورتوں میں سفید داڑھی لگا کر جا دھمکتا، وہ سب خوف سے چیخ اٹھتیں اور ادھر ادھر بھاگنے لگتیں۔ کبھی لطیف آپ ہی آپ کوئی ننھا سا ڈراما تیار کرتا۔ ہم اس ڈراما کی تیاری شروع کر دیتے۔ لطیف ڈراما کا ہیرو بنتا اور مظفر مسخرا۔ کئی دن تک یہ پروگرام چلتا اور ہر رات کمپنی باغ کی سیر ہوتی۔ کمپنی باغ کے درختوں، روشوں، پھولوں، فواروں اور اس کے نرم نرم سبزے سے ہمیں بے پناہ محبت تھی۔ ہم گھنٹوں طرح طرح کے پھلوں سے کھیلتے، فواروں کا طواف کرتے اور سبزے پر لوٹتے رہتے اور عظیم پر اس کی خاص دھن سوار رہتی ، وہ کمپنی باغ کے اندر اور باہر چمکتے ہوئے جگنوؤں کو پکڑ کر اپنی جھولی بھرتا رہتا۔ جب ہم باغ سے لوٹ رہے ہوتے تو وہ میرے پاس آ کر بڑے فخر سے کہتا:
’’ دیکھو بھائی جان میں نے آج بیالیس جگنو پکڑے ہیں۔‘‘ میں اس سے کچھ جگنو ادھار مانگتا اور پھر دوسرے دوست بھی اس کی منتیں کرتے لیکن وہ گھر آ کر معمول کے مطابق سارے جگنو اپنے بستر پر لگی ہوئی مچھر دانی میں چھوڑ دیتا، خود ذرا دور کھڑا ہو کر زور زور سے تالی بجاتا اور کہتا:
’’ دیکو میں نے کتنے تارے توڑ کر اپنے بستر پر ڈال دیے ہیں۔‘‘ وہ چلا چلا کر سب کو یہ نظارہ دکھاتا۔ صدیق اور مظفر نئے باغوں کے کھوج میں لگے رہتے۔ لطیف نئے ڈرامے سوچ سوچ کر اس میں ہیرو کا کردار ادا کرنا شروع کر دیتا اور فضل نت نئی شرارتوں اور شوخیوں کے نئے نئے پروگرام تیار کرتا۔ ہم چاندنی راتوں میں باغوں سے لوٹ کر جب چمکتی ہوئی سڑکوں اور وسیع گلیوں میں پھرتے تو افضل راہ گیروں کے درمیان چلتے چلتے ایک دم گانا شروع کر دیتا۔ کبھی قدم قدم پر بیٹھکیں اور ڈنڈ پیلتا اور ہمارے ساتھ راہ چلتے بھی ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ پھر ہم سب قہقہے مارتے ہوئے سڑکوں پر ناچنے لگتے۔
آج ککو بلا مسکراتا ہے اس کا باپ لطیف بچوں کی طرح اس سے باتیں کرتا ہے۔اس کا ماموں عظیم جب اسے گدگداتا اور نئی نئی باتیں سمجھاتا ہے تو میری نظروں میں بچپن کے معصوم عظیم اور لطیف گھوم جاتے ہیں۔گاؤں کے درخت شہتوت ، جامن اور راوی کا کنارہ یاد آ جاتا ہے اور شہر کا کمپنی باغ، امرود، لوکاٹ سب کی یاد آتی ہے۔ کئی معصوم شوخیاں ، آپس کا پیار، زندہ دلی، بے فکری اور خوشیاں نظروں میں جھومتی اور غائب ہو جاتی ہیں۔ ان مسکراہٹوں، خوشیوں اور قہقہوں کا ایک ہزارواں حصہ بھی ہمارے پاس نہیں رہا۔ میرا ننھابھانجا ککو بلا مسکراہٹیں ہمارے حوالے کرتا ہے تومیں بے اختیار اس افضل کو ڈھونڈتا ہوں جو بڑے پیار سے ہمیں شرارتوں کے نئے پروگرام بتاتا اور سڑکوں پر ناچا کرتا تھا۔ میں اس آرٹسٹ لطیف کو ڈھونڈتا ہوں جو نئی نئی ایجادیں سوچنے کے علاوہ ہیرو کے جوہر دکھانے کے لیے بیتاب رہتا تھا اور میں اس عظیم کو تلاش کرتا ہوں جو اپنے بستر پر ستارے قید کر کے ڈال دیتا تھا۔ وہ بہاروں، جامنوں، امرودوں، ناشپاتیوں، پھولوں اورجگنوؤں کے دن کہاں گئے ہیں؟ وہ سنہرے ہرے بھرے دن ہم سے اس لیے چھن گئے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہیں۔ ہم اپنے آپ سے چھن گئے ہیں۔
صدیق آج کل کلرکی میں کھویا ہوا ہے، مظفر بہت لمبی داڑھی رکھ کر بچوں کی پلٹن کو پال رہا ہے اور سڑکوں پر ناچنے کودنے گانے والا افضل بہت وسیع کاروبار کا مالک اور تگڑا زمیندار ہے۔ آج وہ صرف دولت کے گرد بھنگڑا ڈالتا ہے۔ اسے اپنا بچپن ، بچپن کے ساتھی بھول گئے ہیں۔ ان کی یاد کبھی اس کے دل میں نہیں آتی۔ اب وہ اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھتا۔ اس کے دونوں چھوٹے بھائی، میں اور عظیم اس کی فرم کے ایک منشی جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتے۔اسے اب لوگ افضل کہنا اس کی توہین سمجھتے ہیںوہ اب شیخ صاحب کہلاتا ہے، ایک بہت بڑی فرم کا مالک۔
یہ جگنوؤں سے عشق کرنے والا عظیم ہے، اس کے ذہن سے بھی وہ سنہرے دن دھل چکے ہیں، اس نے زندگی بھر دوسروں کو دوست اور ساتھی بنانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں ناکام ہو کر آخر اپنا تخلص ساتھی رکھ لیا ہے اور یہ عظیم یا ساتھی بچپن سے اپنی خوشیوں اور مسرتوں سے بچھڑ چکا ہے، وہ بچپن کے افضل مگر آج کے شیخ صاحب کو اس لیے نہیں بھایا کہ وہ شیخ صاحب کی فرم میں کام کرنے کے قابل نہیں۔ اس کے ذہن میں فرم کے خشک کام کی بجائے بچپن کے جگنو ناچتے ہیں۔ اسی لیے وہ بڑے بھائی اور والد کے غصہ کا شکار ہے۔ آج کل لطیف کے ساتھ رہتا اور اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہے۔ بڑے بھائی، کل کے افضل اور آج کے شیخ صاحب ،سے دولت کے لالچ اور کثرت نے بچپن کی معصومیت چھین لی ہے اور چھوٹے بھائی ساتھی سے پیسانہ ہونے کی حالت اور بیکاری کے خوف نے۔
اور یہ لطیف ہے بچپن کا آرٹسٹ اور ہیرو مگر دنیا نے اس کے آرٹسٹ کا گھلا گھونٹ دیا ہے۔ جھلتی ہوئی لو اور کڑکڑاتی سردی میں نہریں ناپتے ناپتے وہ ایک فنکار کے بجائے مشین بن گیا ہے۔ ایک کھڑکھڑاتی سی مشین، اسے اپنے کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے ، آرام یا تفریح کرنے پر بھی اختیار نہیں رہا۔ وہ چپ چاپ گم صم سا بیٹھا یوں ہی ہنس دیتا ہے اور ہنستے ہنستے اچانک گم ہو جاتا ہے۔
اور میں ہوں جو ایک لمبی بیماری، مستقبل بیکاری اور دکھوں سے لدا ہوا یہاں آیا ہوں۔ میں نے پچھلے کئی سالوں میں اپنی خوشیوں اور آرزوؤں کا قتل عام ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے اپنے بچپن کے ساتھیوں کی معصومیت، سچی خوشی اور مسکراہٹوں کا قافلہ لٹتے دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ پھولوں اور فواروںسے محبت کرنے والا انسان کس طرح نغموں اور خوشیوں سے ہاتھ دھو کر مشین،خود غرض اور لالچی بن جاتا ہے اور اب میرے سامنے جب ککو بلا مسکراتا ہے ،خوشی کے مارے ننھے ننھے ہاتھ پاؤں ہلاتا ہے اور میرے دکھ اور غم سے مجھ سے کوسوں دور بھاگ جاتے ہیں تو چند لمحوں کے لیے ایک گہری سوچ میں عجیب سا خوف میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے ۔ میں دل ہی دل میں کہتا ہوں:
’’ ککو بلے! تیری یہ ٹھنڈی چاندنی اور پھولوں ایسی مسکراہٹ ہمیشہ قائم اور محفوظ رہے ۔یہ مسکراہٹ یہ سچی معصوم خوشی انسان کا ازلی ورثہ ہے لیکن ہم سے دنیا نے یہ ورثہ۔۔۔ یہ حق بڑی بے دردی سے چھین لیا ہے۔ دنیا خوشیاں اور مسکراہٹیں چھین کر ان کی جگہ دکھوں اور غموں کا زہر بھر دیتی ہے۔ یہ جامنوں، ناشپاتیوں، پھولوں ، فواروں اور جگنوؤں کو ملیا میٹ کر دیتی ہے۔ لیکن ککو بلے میں ہمیشہ تیرے پتلے پتلے ہونٹوں پریہی ٹپکتی ہوئی خوب صورت، جادو بھری مسکراہٹ دیکھنا چاہتا ہوں اور اس لیے چاہتا ہوں کہ اس دنیا کے زہر کے چھالے ہمیشہ کے لیے توڑ دوں؛ تاکہ تیری اور تیرے ایسے سارے معصوم بچوں کی مسکراہٹ کو کوئی زہریلی ہوا چھو تک نہ سکے؛تاکہ یہ ساری دنیا ناشپاتیوں،جامنوں، میٹھے شہتوتوں اور ناچ گانوں کا بہت بڑا باغ بن جائے۔ جہاں ہر وقت خوشیوں کے فوارے چھوٹتے رہے۔ تیری زندگی سچی خوشیوں اور قہقہوں سے بھر پور ہو جائے اور تیری مسکراہٹ بڑھ کر پھیل کر اتنی وسیع اور ابدی ہو جائے کہ پوری انسانیت اس میں نہا لے اور سارے انسان یہ دائمی مسکراہٹ لے کر سبزہ زاروں پر گاتے، جھومتے اور ناچتے پھریں۔‘‘

٭٭٭