جنگل کے ڈاکو

جاوید بسام

اس کا اصل نام توکسی کو معلوم نہیں تھا ، لیکن سب اسے میاں بلاقی کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ قصبے کا سب سے پرانا کوچوان تھا اور اپنی دو گھوڑوں والی بگھی میں مختلف سامان دوسرے قصبوں میں پہنچاتا تھا۔ چاہے گھر کا فرنیچر ہو،غلے کے بورے ہوں یا پالتو جانور، اس کی گاڑی میں ہر چیز کے لیے جگہ نکل آتی تھی۔ موسم اچھا ہو یا خراب، وہ ہر وقت کام کے لیے تیار ہوتا۔ اسے یہ کام کرتے ہوئے چالیس سال گزر گئے تھے۔ لوگ اس پر بھرو سا بھی بہت کرتے تھے۔
منگل کی شام اسے قصبے کے بڑھئی کا پیغام ملا کہ صبح دکان پر آجائے۔ وہ وہاں پہنچا تو بڑھئی بوالا:’’میاں! یہ میز اور کرسیاں شمالی قصبے میں بھیجنی ہیں۔‘‘
میاں بلاقی سامان کو تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا :’’ لگتا ہے تم نے اُن پر بہت محنت کی ہے۔نقاشی بہت صفائی سے کی ہے۔ کپڑا بھی بہت اعلیٰ ہے اور پالش میں تو کمال ہی کر دیا ہے۔ یہ کس خوش نصیب کو پہنچانی ہیں؟‘‘
بڑھئی پتا سمجھاتے بولا:’’ یہ سامان چھوڑآؤ۔ اس نے مجھے پیشگی رقم ادا کردی تھی۔ اپنی مزدوری بھی تم مجھ سے لے لو، لیکن احتیاط سے جانا۔ آج کل جنگلوں میں لٹیروں کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ میں تو چاہتا تھا کہ کچھ دن بعد بھجواؤں ، لیکن ان کے گھر میں کوئی تقریب ہے، اس لیے انھیں بہت جلدی ہے۔‘‘
بلاقی شیخی سے بولا:’’ پروا نہیں، تمام جنگل میرا دیکھا بھالا ہے۔ اس کے راستوں پر لگے ہر ہر درخت سے میں واقف ہوں۔ یہ بچے میرا کیا بگاڑ لیں گے۔‘‘ اس نے میز اورکرسیاں گاڑی پر لادیں اور بڑھئی کو خدا حافظ کہہ کر چل دیا۔
وہ قصبے کے بڑے بازار کی طرف چل دیا۔ بہت سی بگھیاں اس کے آس پاس سے گزر رہی تھیں۔ لوگ اپنے کاموں پر جا رہے تھے۔ کسی نے اسے فٹ پاتھ سے آواز لگائی اور ہاتھ لہرایا۔ اس نے بھی جواب میں ہاتھ لہرایا،لیکن ہجوم کی وجہ سے اس کی شکل نہ دیکھ سکا، وہ بڑبڑایا:
’’مجھے سب جانتے ہیں۔‘‘
پھر اس کی نظر اس حلوائی کی دکان پر پڑی جو اپنے لڈوؤں کی وجہ سے دور دور تک شہرت رکھتا تھا۔ بلاقی کو بھی وہ لڈو بہت بھاتے تھے، لہٰذا اس نے ایک ڈبا خرید لیا۔ کچھ دور چلنے کے بعد اسے سڑک کے کنارے اپنے بچپن کا دوست جاتا نظر آیا۔ وہ لاٹھی ٹیکتا ہوا آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ بلاقی نے گاڑی اس کے پاس روک دی اور بولا:’’ آؤ دوست! تمھیں شمالی قصبے کی سیرکرالاؤں۔ جلد ہی واپس آجائیں گے۔‘‘
بوڑھے نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا اور بولا:’’ توبہ کرو، مجھ میں تمھاری ہنڈولہ گاڑی میں بیٹھنے کی ہمت نہیں اور کیا کہا شمالی قصبے؟خدارا! وہاں نہ جانا۔ وہاں تو لٹیروں نے اُودھم مچا رکھا ہے۔ اب تم میرے واحد دوست رہ گئے ہو۔‘‘ اس کی آواز بھرا گئی۔
بلاقی نے قہقہہ لگایا اور بولا:’’ ڈرو مت۔ میں نے کبھی اپنا کام ادھورا نہیں چھوڑا۔ میں کل تم کو چائے خانے پر ملوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے گھوڑوں کو چابک مارا اور آگے چل دیا۔
ایک موڑمڑنے پر گھنٹہ گھر کے قریب اسے وہ لڑکا کھڑا نظر آیا، جسے وہ اکثر اپنی مدد کے لیے بلالیا کرتا تھا۔ اس نے بگھی روک لی۔ لڑکا اُچک کر اس کے برابر آبیٹھا اور بولا:
’’ بابا! مجھے معلوم ہے ، تم شمالی قصبے میں جا رہے ہو۔ میں ماں کو بتا آیا ہوں۔‘‘
اس لڑکے کا باپ مر چکا تھا، وہ اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتا تھا اور قصبے کے مقامی اسکول کاذہین طالب علم تھا۔ بلاقی اکثر اسے اپنے ساتھ لے جاتا تھا اور معقول اجرت دیتا تھا،لیکن آج یہ بات سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا، پھر بولا:’’لیکن مجھے تو آج تمھاری ضرورت نہیں ہے۔‘‘
لڑکا مایوس نظر آنے لگا۔ بلاقی جلدی سے بولا:’’البتہ آج مجھے ایک اور اہم کام ہے۔ میرے گھر کے احاطے میں فالتو جھاڑیاں اگ آئی ہیں۔ رات کو مچھر بہت تنگ کرتے ہیں۔ تم وہ صاف کرڈالو۔‘‘
اس نے جیب سے کچھ نوٹ نکال کر اسے دیے۔لڑکا رخصت ہو گیا۔
بلاقی نے جلدی جلدی گھوڑوں کو چابک مارے اور چل دیا۔ وہ دھیرے دھیرے بڑبڑا رہا تھا:’’ بھلا میں اس معصوم کو کیوں مشکل میں ڈالوں۔‘‘
آخر قصبے کی حدود ختم ہو گئی۔ قبرستان کے پاس گزرتے ہوئے اسے وہ لوگ یاد آئے، جو کبھی اس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔اس نے ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے دعا کی۔ کچھ دور چلنے کے بعد بگھی جنگل میں داخل ہو گئی۔ تمام جنگل پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونج رہا تھا۔ تازہ ہوا میں سبزے کی مہک تھی۔ کچے راستے کے دونوں جانب اُگے ہوئے درخت اوپر جا کرآپس میں مل گئے تھے، جس سے راستہ سایہ دار ہو گیا تھا۔ بلاقی نے گہری گہری سانسیں لیں۔ وہ ہمیشہ جنگل میں آخر خوشی اور سکون محسوس کرتا تھا۔بگھی مناسب رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ راستہ ہموار تھا۔ کبھی کبھار کوئی گلہری یا خرگوش راستے پر چلا آتا۔ پہلے تو وہ حیرت سے آتی ہوئی گاڑی کو دیکھتا، پھر تیزی سے جھاڑیوں میں غائب ہو جاتا۔
آدھا راستہ طے ہو گیا تھا۔ قلعے کے کھنڈرات کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے راستے پر کچھ پڑا ہوا نظر آیا۔ قریب آنے پر دیکھا کہ درخت کا بڑا سا تنا ہے۔ بلاقی نے خود کلامی کی:’’کیسے بے پروا لوگ ہیں۔ راستے پر چیزیں ڈال دیتے ہیں۔ نہ جانے کب انھیں عقل آئے گی۔‘‘ لیکن وہ دل میں کہہ رہا تھا: ’’میاں! لگتا ہے کوئی تمھارا منتظر ہے۔‘‘
اس نے بگھی روکی اور اُتر کر اس کی طرف بڑھا۔ جیسے ہی وہ گرے ہوئے تنے کو ہٹانے کے لیے جھکا، پیچھے سے آہٹ محسوس ہوئی۔ وہ گھوما تو بڑی بڑی مونچھوں والے تین آدمی نظر آئے، ان کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے۔ بلاقی بولا:
’’آہا…دوستو! اچھے وقت پر آئے، ذرا اس رکاوٹ کو ہٹانے میں میری مدد کرو۔‘‘
ان آدمیوں کا سرغنہ زور سے قہقہہ لگا کر بولا:’’میرے خیال میں تم میاں بلاقی ہو۔ تمھاری بہت شہرت سنی تھی۔ اچھا ہوا ، آج ملاقات ہو گئی۔ دراصل ہم بے گھر لوگ ہیں۔ ہمیں کچھ سامان کی ضرورت ہے۔ تم اپنی گاڑی میں کیا لے جا رہے ہوں؟‘‘ وہ آگے بڑھا۔
’’واہ وا!ایسی شان دار کرسیاں میاں بلاقی! تم ٹھیک موقع پر آئے، ہم لوگ پتھروں اور درختوں کی لکڑیوں کو بطور کرسیوں کے استعمال کرکے تھک چکے ہیں۔ اچھا ہوا تم یہ لے آئے۔‘‘
اس کے ساتھی زور سے ہنسے ، پھر اس کی نظر لڈوؤں کے ڈبے پر پڑی وہ بولا:آہا ! ہم تو اس کے لیے بھی ترس گئے ہیں۔ بلاقی! تم نے ہمارے دل جیت لیے۔‘‘
وہ ڈبا اُٹھا کر سامنے گھاس پر جا بیٹھا ، پھر تینوں لڈوؤں پر ٹوٹ پڑے۔ بلاقی خاموشی سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر میں ہی انھوں نے ڈبا خالی کر دیا اور انگلیاں چاٹنے لگے، لیکن پھر اچانک وہ تینوں جھومنے لگے۔ایسا لگتا تھا کہ انھیں نیند نے آلیا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ لیٹتے گئے اور بے سدھ ہوگئے۔ بلاقی نے پُرخیال اندازمیںگردن ہلائی اوراپنی گاڑی سے موٹی رسی نکال لایا۔
شمالی قصبے پہنچ کر وہ تھانے میں داخل ہوا اور بولا:’’سنو پولیس افسر! میں بلاقی ہوں۔‘‘
’’ہاں،ہم جانتے ہیں۔‘‘ افسر نے کہا۔
’’ایک پرچے پر لکھو۔‘‘
’’لیکن کیا اور کیوں؟‘‘ افسر نے حیرت سے پوچھا۔
’’تم لکھو، شاباش! رپورٹ کے نیچے لکھو۔ آج کے دن میاں بلاقی نے ان لٹیروں کو پکڑوایا، جنھوں نے لوگوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔‘‘
’’لیکن وہ کہاں ہیں؟‘‘ افسر نے پوچھا۔
’’میری گاڑی میں بندھے پڑے ہیں۔‘‘
تھوڑی دیر میں وہاں بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ بلاقی نے بتایا کہ ایسے لوگوں سے نمٹنے کے لیے میں نے بے ہوشی کی دوا لڈوؤں میں ملا دی تھی۔ سب اس کی بہادری اور ذہانت کی تعریف کر رہے تھے۔ اخبار کا رپورٹر بھی موجود تھا، وہ اس کے فوٹو کھینچ رہا تھا۔
دوسرے دن چائے خانے پر بہت سارے لوگ جمع تھے۔ میاں بلاقی درمیان میں بیٹھا انھیں تمام قصہ سنا رہا تھا۔ لوگوں کے ہاتھوں میں اخبار بھی تھے۔ جن کی شہ سرخیاں بلاقی کے کارنامے پر تھیں۔ اس کی تصویر بھی شائع ہوئی تھی۔کمشنر کی طرف سے انعام کا بھی ذکر کیا گیا تھا،جو ایک بڑی رقم تھی،پھر لوگ اسے مشورہ دینے لگے۔
کسی کا خیال تھا کہ اسے دنیا دیکھنے کے لیے سفر پر نکل جانا چاہیے اور کوئی کہہ رہا تھا کہ جھیل کنارے خوب صورت گھر بنا لینا چاہیے۔
بلاقی خاموشی سے سب کی سن رہا تھا۔
آخر وہ گہری سانس لے کر بولا:’’ دوستو! میں کام کرنے کا عادی ہوں۔ مجھے کام کرنے میں مزہ آتا ہے۔ میری زندگی مزے سے گزر رہی ہے۔اب میں دوسروں کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
کچھ دیر ٹھہر کر اس نے ایک لڑکے کو اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا:’’بیٹے ! یہاں آؤ۔‘‘
لڑکا جھجکتا ہوا آگے چلا آیا۔ یہ وہی لڑکاتھا جو قصبے کے اسکول کا ذہین طالب علم تھا۔
بلاقی نے پھر کہا:’’جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں ، ہمارے علاقے میں کوئی مستند ڈاکٹر نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں ، یہ لڑکا پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنے اور اس علاقے کی خدمت کرے۔ کل میں تمام رقم اس کے نام سے بینک میں جمع کرادوں گا۔ جب تک یہ پڑھتا رہے گا، اسے ماہانہ خرچ ملتا رہے گا۔‘‘
سب نے بلاقی کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔ اس کی آنکھوں میں بھی خوشی کے آنسو اُمڈ آئے تھے، جنہیں اس نے چپکے سے پونچھا اور وہاں سے اٹھ کر گھر کو روانہ ہو گیا۔

٭٭٭