ماسٹر صاحب

شوکت تھانوی

’’ آخر یہ کب تک یوں ہی گلی میں ڈنڈا اڑاتا پھرے گا؟ تم کو تو جیسے کوئی فکر ہی نہیں ہے ، تعلیم کا زمانہ نکلا جا رہا ہے۔‘‘ والدہ صاحبہ نے اس خاکسار کے متعلق یہ الفاظ والد صاحب سے اس وقت کہے جب وہ بے چارے دن بھر کے تھکے ماندے رات کو حقہ پیتے پیتے سو جانے کے قریب تھے۔ چناں چہ انھوں نے گویا چونک کر جواب دیا:
’’ ایں کیا کہا؟ تعلیم کا زمانہ نکلا جا رہا ہے؟ حالاں کہ اب تعلیم کا زمانہ آیا ہے ۔ بہر حال میں خود اس کی فکر میں ہوں کہ کوئی معقول سا ماسٹر مل جائے تو اس کو پڑھنے بٹھا دوں۔‘‘
اس واقعہ کے تین یا چار دن بعد ایک ادھیڑ عمر انسان، بحیثیت ماسٹر کے ، والد صاحب خدا جانے کہاں سے پکڑ لائے اور ہم کو ان حضرت کے سپرد کر دیا۔ لہٰذا ہم نے ان سے شرف تلمذ حاصل کرنا شروع کر دیا اور مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی اردو ریڈر کے علاوہ کنگ پرائمری کا سبق بھی لینے لگے۔ اگر استاد قابل اور شاگرد ذہین ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیم کامیاب نہ ہو۔ چناں چہ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ چار پانچ مہینوںکے اندر ہم نے اردو ریڈر بھی بفضلہ ختم کر دی اور کنگ پرائمری کے پندرہ سولہ صفحے پڑھ ڈالے۔ اس کے علاوہ، اے بی سی ڈی مختلف طریقوں سے لکھنا سیکھ گئے اور سو تک کے ہندسے اردو اور انگریزی میں لکھنا سیکھ لیے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ چار پانچ مہینے میں اس سے زیادہ ایک ماسٹر اور کیا پڑھا سکتا تھا اور ایک ذہین شاگرد اور کیا پڑھ سکتا تھا؟ مگر باوجود ماسٹرصاحب کی اس محنت اور ہماری ذہانت کے والدہ صاحبہ کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی تھی کہ ماسٹر صاحب کچھ پڑھاتے وڑھاتے نہیں ہیں اور ہمیشہ جلدی چھٹی دے دیا کرتے ہیں۔
قصہ اصل میں یہ تھا کہ ماسٹر صاحب بے چارے ہم کو دو گھنٹے روز پڑھانے پر مامور تھے مگر ہم کو یاد نہیں پڑتا کہ کبھی آدھ گھنٹے سے زیادہ پڑھایا ہوا۔ پہلے تو آتے ہی ہم کو اردو ریڈر کا سبق اس طرح پڑھایا کہ خود پڑھتے گئے اور ہم سے کہا کہ آواز سے آواز ملا کر تم بھی پڑھتے جائو۔ چناں چہ ماسٹر صاحب کتاب دیکھ کر پڑھاتے تھے اور ہم ماسٹر صاحب کو دیکھ کر ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ دہراتے تھے۔ اس کے بعد کل کا سبق اس طرح سنتے تھے کہ ہمارے آگے کتاب رکھ دی اور کہا سنائو۔ ہم کبھی کتاب دیکھتے اور کبھی ماسٹر صاحب کا منہ۔ اس کے بعد وہ خود ہی کہتے:

’’رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی‘‘

ماسٹر صاحب خوش کر کہتے تھے:’’ شاباش! ہاں اور آگے۔‘‘

’’اس مالک کوں کیوں نہ پکاریں
جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں‘‘

ہم ماسٹر صاحب کی آواز سے آواز ملا کر یہ شعر بھی پڑھ دیتے۔ لیجیے قصہ ختم، گویا سبق یاد ہے۔
اس کے بعد اسی طرح کنگ پرائمری کا سبق پڑھایا اور سنا جاتا تھا۔ پھر ماسٹر صاحب سلیٹ ہمارے سامنے رکھ کر ہمارا ہاتھ جس میں سلیٹ کی پنسل ہوتی تھی۔ قلم کی طرح اپنے ہاتھ میں لے کر گنتی لکھنا شروع کرتے تھے اور کوئی پانچ ہی منٹ میں یہ کام بھی ختم ہو جاتا۔ مختصر یہ کہ آدھ گھنٹے کے اندر، اردو، انگریزی اور حساب کی مکمل تعلیم ہو جاتی اور یہی بات والدہ صاحبہ کو ناگوارہوتی تھی۔
بہر حال ہماری تعلیم جاری تھی اور ہم فاضل ہو جانے کے قریب ہی تھے کہ ایک دن والد صاحب کو بھی ذرا ہماری تعلیم کا خیال آیا اور انھوں نے ہم کو پاس بلا کر پوچھا:’’ تم نے انگریزی کہاں تک پڑ ھ لی؟‘‘
ہم نے کہا:’’ آدھی کتاب پڑھ چکے ہیں۔‘‘
والد صاحب نے اپنا انگریزی اخبار اٹھا کر ایک موٹے سے حرف پر انگلی رکھتے ہوئے کہا:’’ یہ کون سا حرف ہے؟‘‘
ہم نے اس حرف کو گھور کر دیکھااور غور کرنا شروع کر دیا۔ یہ کون سا حرف ہو سکتا ہے؟ مگر کافی غورکے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ خواہ کوئی بھی حرف ہو بہر حال ہماری کتاب میں نہیں ہے۔
والد صاحب نے کہا:’’ بتائو یہ کون سا حرف ہے؟‘‘
ہم نے جواب دیا:’’ یہ حرف تو ہم نے نہیں پڑھا۔‘‘
والد صاحب نے کہا’’ ایں کیا کہا؟ یہ حرف تم نے نہیں پڑھا اور آدھی کتاب پڑھ گئے؟ اچھا یہ کون سا حرف ہے؟‘‘
ایک اوپر کے حرف پر والد صاحب کی انگلی رکھی ہوئی تھی۔ یہ حرف بھی کچھ عجیب قسم کا تھا گویا چائے کی پیالی کا ٹوٹا ہوا کنڈا۔ ہم نے اسے غور سے دیکھا کر گردن ہلاتے ہوئے کہا:’’ ہمیں نہیں معلوم۔‘‘
ایک تیسرے حرف پر والد صاحب نے انگلی رکھ دی۔ یہ حرف بالکل ڈلی کاٹنے کے سروتے کی طرح تھا اور غالباً حرف نہیں تھا بلکہ سروتا تھا۔ لہٰذا ہم نے کہا:’’ سروتا ہے۔‘‘
والدصاحب نے حیرت سے کہا:’’ کیا کہا، سروتا ہے، سروتا کیا؟‘‘
ہم نے والد صاحب کی محدود معلومات پر ہنستے ہوئے کہا:’’آپ کو معلوم نہیں سروتا کس کو کہتے ہیں؟ جس سے ڈلی کاٹی جاتی ہے۔‘‘ والد صاحب نے ہم کو اور اس حرف کو یکے بعد دیگرے غور سے دیکھتے ہوئے کہا:’’ یہ ڈلی کاٹنے کا سروتا ہے؟ کیا تمھارے ماسٹر نے یہی تم کو بتایا ہے؟‘‘
ہم نے کہا:’’ نہیں ماسٹر صاحب نے تو نہیں بتایا میں خود ہی کہہ رہا ہوں۔‘‘
والد صاحب نے کہا:’’ اچھا اپنی کتابیں لائو!‘‘
ہم اپنی کتابیں لے آئے اور والد صاحب نے کنگ پرائمری لے کر پوچھنا شرع کیا:’’ ریٹ معنی؟‘‘ ہم نے جلدی سے کہا’’ ایم اے این ریٹ معنی آدمی۔‘‘
والد صاحب نے ذرا تیز آواز میں پوچھا:’’ ایم اے این ریٹ ہوا؟‘‘
ہم نے گھبرا کر ’’ جی۔جی نہیں۔ ایم اے این شاید کیٹ ہوا۔ کیٹ یعنی بلی۔‘‘
والد صاحب نے کنگ پرائمری رکھ کر کہا:’’ ماشاء اللہ! خوب ان ماسٹر صاحب نے پڑھایا ہے اور خواب آپ نے پڑھا ہے۔ اچھا ذرا اردو کی کتاب تو لائیے جو آپ ختم کر چکے ہیں۔‘‘
ہم نے کتاب دے دی اور والد صاحب نے کتاب کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی کہ پڑھو۔ مگر آپ ہی بتائیے کہ یہ بھی پڑھنے کا کوئی طریقہ تھا کہ ہم خود بخود پڑھنے لگیں۔ ہم انتظار کرنے لگے کہ اب والد صاحب پڑھیں گے اور ہم کو آواز سے آواز ملا کر پڑھنا پڑے گا مگر بجائے اس کے کہ وہ پڑھتے، انھوں نے پھر کہا:پڑھو بھائی پڑھتے کیوں نہیں؟ یہ کتاب تو تم ختم کر چکے ہو۔‘‘
ہم نے کہا:’’ جی ہاں، یہ تو بہت دن ہوئے ختم ہو گئی۔ آپ پڑھیے تو میں بھی پڑھوں۔‘‘
والد صاحب نے کہا’’ میں پڑھوں یعنی کیا مطلب اس سے۔‘‘
ہم نے کہا:’’ جی ہاں آپ پڑھیے گا جب ہی تو ہم پڑھیں گے۔‘‘ والد صاحب نے انتہائی حیرت سے کہا:’’ میں پڑھوں گا، جب تم پڑھو گے؟ یہ کیا! تو کیا تم کو اسی طرح پڑھایا گیا ہے؟‘‘
ہم نے کہا:’’ جی ہاں، ہم کو ماسٹر صاحب نے اسی طرح۔۔۔‘‘
اتنے میں ماسٹر صاحب نے باہر سے آواز دی اور والد صاحب نے ہم سے کہا: ’’ جاؤ ماسٹر صاحب آ گئے ہیں پڑھو جا کر!‘‘
ہم نے باہر جاتے ہی ماسٹر صاحب سے آج کے امتحان کا ذکر کیا اور اس کے بعد کل کا سبق سنانے بیٹھ گئے ۔ ماسٹر صاحب نے کہا:’’ ہاں کل کا سبق سناؤ!‘‘

’’رات گزری نور کا تڑکا ہوا‘‘

ہم نے کہا:

’’رات گزری نور کا تڑکا ہوا‘‘

ماسٹر صاحب نے پڑھا :

’’ہوشیار اسکول کا لڑکا ہوا‘‘

ہم نے آواز ملا کر پڑھا:

’’ہوشیار اسکول کا لڑکا ہوا‘‘

چوں کہ کل کا سبق ہم کو یاد تھا لہٰذا ہم کو نیا سبق دیا گیا اور پھر انگریزی کا سبق شروع ہوا۔ انگریزی کے بعد حساب اسی طرح سکھایا گیا۔ گنتی ختم ہونے کے بعد ہی ہم نے ماسٹر صاحب سے کہا:’’اچھا اب جائیں۔‘‘
ماسٹر صاحب نے کہا:’’ ابھی بیس ہی منٹ ہوئے ہیں اور پڑھو!‘‘
ہم کتابیں چھوڑ کر ماسٹر صاحب کے گردن میں لٹک گئے۔’’ آپ بڑے اچھے ہیں ، چھٹی دے دیجیے۔‘‘
ماسٹر صاحب نے کہا:’’ اچھا جاؤ!‘‘ اور خود جانے کے لیے اٹھے ہی تھے کہ آواز آئی:’’ ماسٹر صاحب! ذرا ٹھہریے گا۔‘‘ والد صاحب اوپر کی کھڑکی سے جھانک رہے تھے۔ ماسٹر صاحب ان کو دیکھ کر ٹھہر گئے اور والد صاحب نے کوٹھے کے اوپر سے اتر کر ماسٹر صاحب کو پانچ روپے کا ایک نوٹ دیتے ہوئے کہا:’’ آپ کل سے زحمت نہ کیجیے گا۔‘‘
ہم کو ان ماسٹر صاحب کی جدائی کا تو چنداں افسوس نہیں ہوا مگر تین چار دن کے بعد ہی ایک دیوزاد ماسٹر صاحب ہم کو پڑھانے کے لیے مقرر کر دیے گئے جن سے والد صاحب اور والدہ صاحبہ دونوں محض اس لیے خوش تھے کہ وہ ہم کو گھونٹا کرتے تھے ، سوا تین گھنٹے تک اور وہ بھی خالی ہاتھ نہیں بلکہ قمچی کی مدد سے۔ بہر حال ان کی ان جفاکاریوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم چائے کی پیالی کے کنڈے کو’’ پی‘‘ اور سروتے کو’’ آر‘‘ کہنے لگے۔

٭٭٭