جب گاڑی نے گلی کا موڑ لے لیا تو وہ گھر میری نظروں سے اوجھل ہوگیا اور میں نے سیٹ کی پشت پر اپنی گردن ٹکا کر آنکھیں بند کرلیں۔ ’’تو اب میں اس گھر کو اپنی نانی کا گھر کبھی نہیں کہہ پاؤں گی۔‘‘
دل سے ایک آہ نکلی اور دو ننھے منے آنسو میری آنکھوں سے باہر آنے کے لیے بے چین ہوگئے۔ میں نے گردن گھمالی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ بچپن کے بہت سارے منظر میرے ذہن کی کے پردے پر تیزی سے گزرنے لگے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ایک صحت مند اور لا اُبالی سا بچپن کتنی خوب صورت شے ہوتا ہے۔
٭…٭
میرے نانا اور نانی کا گھر بہت بڑا اور خوب صورت تھا۔ شاید بچپن میں سب ہی کو اپنی نانی کا گھر بہت بڑا لگتا ہے کیوں کہ ہم خود جو چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں مگر میری نانی کا گھر تو واقعی بہت بڑا تھا۔ یہ بڑا سا ہری گھاس والا لان تھا جن کے تینوں جانب آم، شہتوت کے درخت اور بہت سے گلاب کے پودے بھی لگے تھے۔ ایک جانب جھولا تھا جس میں بیک وقت دو بچے جھول سکتے تھے۔ پھر ہم لمبی لمبی پینگیں لیتے اور چھلانگیں مارتے تھے جس کا پائوں دور پڑتا وہی جیتتا تھا اور ان چھلانگوں کی وجہ سے ہری گھاس پر نشان پڑجاتے تھے۔ جھولے کی پشت پر کنگھی پام کا اونچا لمبا درخت تھا جو رات کو ہوا سے ہلتا تو لگتا تھا کہ دیو چلا آرہا ہے۔ وہ گھر اتنا بڑا تھا کہ جتنے لوگ آجائیں سب کو جگہ مل جاتی تھی۔ چھٹیوں میں چھوٹی خالہ اور ان کے بچے سعودی عرب سے آتے تھے۔
ماموں کے بچے اسی گھر میں ہوتے اور پھر ہم بہن بھائی بھی بوریا بستر لے کر چھٹیاں گزارنے پہنچ جاتے تھے، ہماری نانی اماں بڑی چاہت سے اپنی بھتیجی کی چار بیٹیوں کو بھی بلوالیتی تھیں۔ یوں تقریباً نو یا دس کزنز مل جاتے تھے اور پھر خوب ہی دھما چوکڑی مچتی۔
عجیب بات یہ تھی کہ وہ گھر سب ہی کو اپنے دامن میں سمولیتا تھا۔ بڑی میز کے گرد سب کو جگہ مل جاتی تھی اور کوئی بھی دسترخوان سے بھوکا نہیں اُٹھتا تھا۔ رات ہوتی تو سب کو گدے تکیے مل جاتے تھے، وہاں کبھی بے آرامی محسوس نہیں ہوئی۔ پتا نہیں یہ نانا نانی اور دادا دادی کے گھر اتنے وسیع کیسے ہوتے ہیں؟
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تو میں نے آنکھیں کھولیں۔ شاید سگنل کی بتی لال تھی۔
’’نئے مالک مکان اس گھر میں رہیں گے؟ یا کراے پر دے دیں گے؟‘‘ میں نے اپنے بھائی سے پوچھا جو اسٹیئرنگ پر ہاتھ دھرے دور خلائوں میں گھور رہا تھا۔ اس نے نہ تو میری جانب دیکھا اور نہ سوال کا جواب دیا۔شاید اس نے سنا نہیں۔ میں نے دل میں سوچا اور پھر سے آنکھیں موندلیں۔
٭…٭
خالہ زاد بہن سعدیہ اور میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھر کے اندرونی دروازے سے نکل کر لان کی طرف جارہے تھے کہ کھڑکی کے ساتھ رکھی سیڑھی پر نظر پڑی۔ شاید مزدورں نے رکھی تھی اور وہیں ٹکا کر چلے گئے تھے۔
ہم دونوں کے زرخیز دماغ میں اچانک ہی ایک خیال آیا کہ کھڑکی سے باہر جو چھجا نکلا ہوا ہے اس پہ چڑھ کر تفریح کا سامان کیا جائے۔ پھر کیا تھا۔ چپکے چپکے سامان اور کھلونے جمع کرکے لائے اور دونوں باری باری سیڑھی کے ذریعے چھجے پر پہنچ گئے۔
ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے پکنک کا لطف دوبالا ہوگیا۔ گھر والوں نے جب تک ہماری غیر موجودگی کا نوٹس لیا تب تک ہماری پکنک مکمل ہوچکی تھی اور ہم اترنے کے منصوبے پر غور کررہے تھے۔
پانچ اور سات برس کی دو بچیوں کو بارہ فٹ اونچے چھجے پر چڑھا دیکھ کر گھر والوں کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی۔ اس کی تو ہمیں خبر نہ تھی مگر بہلا پھسلا کر جب ہم کو نیچے اتروالیا گیا تب ہماری خوب ہی خبر لی گئی۔
٭…٭
ٹن ٹن… ٹنن… ٹن ٹن…
گلی سے گزرنے والے قلفی والے کی سریلی ٹن ٹن مجھے بے چین کیے دے رہی تھی۔ میں نے سمیہ کے کان میں کہا۔ ’’قلفی کھائوگی؟‘‘
’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘ اسلام آباد سے آئی ہوئی ماموں زاد بہن نے حیران ہو کر پوچھا تو میں نے سینہ پھلا کر کہا۔ ’’چلو تم کو بتاتی ہوں کہ قلفی کیا ہوتی ہے۔‘‘
’’لیکن پیسے کہاں سے آئیں گے۔‘‘
’’پہلے اس کو تو روکیں پھر پیسے لے لیں گے۔‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دوڑ لگادی۔
وہ پہلی بار کراچی کی ٹھیلے والی قلفی کو بنتا دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اشتیاق اور حیرانی تھی۔ قلفی والے نے ٹھنڈا دھواں اُڑاتی مٹکی پر سے ڈھکنا اٹھایا اور ڈنڈی نکالی جس کے ایک جانب قلفی جمی ہوئی تھی۔ پھر اسے میٹھے دودھ میں ڈبو کر پستے کے برتن میں اُلٹ پلٹ دیا، ہم دونوں کی للچاتی نظریں قلفی کا تعاقب کررہی تھیں۔ اپنی اپنی قلفی پکڑ کر چاٹنا شروع کیا تو یاد آیا کہ اَٹھنّی بھی دینی ہے۔
پھر تو جو قلفی کی چاٹ لگی تو ہم ہر گزرتے ہوئے قلفی والے کو رکوالیتے اور گلک خالی کرتے جاتے۔ شام ہونے تک نہ جانے کتنی قلفیاں کھاگئے جن کا میٹھا میٹھا ذائقہ آج تک زبان پر موجود ہے بعد میں کتنی ہی قلفیاں کھائیں مگر وہ ذائقہ پھر کبھی نہ ملا۔
٭…٭
’’آپ کو قلفی کھلائوں؟ یہاں کی قلفی بہت مشہور ہے۔‘‘
بھائی نے میری اُداسی کو محسوس کرتے ہوئے شاید مجھے خوش کرنے کے لیے کہا تھا، میں نے جواب دیا۔ ’’نہیں… قلفی تو ٹھیلے پر ہی بنتی اچھی لگتی ہے۔ شیشے والی صاف ستھری دکانوں کی قلفی میں کیا مزا؟‘‘
’’چلیے پھر آپ کو ٹھیلے سے کھلادوں گا۔ میں تو سمجھا کہ آپ بڑی ہوگئی ہیں اور اب ٹھیلے کی مصنوعات کو حفظانِ صحت کے اصولوں پر پرکھنے لگی ہیں۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’نہیں… ایسی بات نہیں ہے۔ ٹھیلے کے صرف دو اصول ہوتے ہیں۔ ’’سستا اور ذائقے دار۔‘‘ میں نے یہ کہہ کر پھر آنکھیں موندلیں۔
٭…٭
’’کیچ پکڑو۔‘‘ بھاگو اب کھڑی کیوں ہو؟‘‘
’’باجی آئوٹ…؟‘‘
یہ لان کی جانب سے آنے والی آوازیں ہیں جہاں پِٹّو گرم کا میدان گرم ہے۔ ہر دفعہ کھیل شروع ہونے سے پہلے ٹیم بننے پر خوب بحث اور لڑائی ہونا ضروری ہے۔
ٹیم بندی کا اصول یہ ہے کہ جس ٹیم میں بڑے بھیا ہوں گے اس میں بشریٰ باجی نہیں ہوں گی۔ وہ اس لیے کہ اگر دونوں کو ایک ٹیم میں لے لیا تو مخالفت پارٹی پہلی ہی باری میں آل ٹیم آئوٹ ہوجائے گی۔ پھر ہم بچوں کی تقسیم کا وقت آتا تھا تو ہمیں برابر برابر بانٹا جاتا۔ اس کے بعد باجیوں کی باری آتی۔ باجیوں کی موجودگی کیوں کہ خطرے کی گھنٹی ہوتی تھی اس لیے دونوں ٹیم کپتان یہ کوشش کرتے کہ باجیوں کو بیلنس کرلیں اور دونوں ٹیموں میں ایک عدد باجی چلی جائیں۔ دراصل باجیاں بھاگنے کے معاملے میں خاصی سوچ بچار کی عادی تھیں اور پھر ان کے دوپٹے بھی اتنے وسیع و عریض ہوتے تھے کہ گیند لگنے کا امکان اسّی سے نوے فیصد ہوتا۔ اکثر تو باجیوں کو یہ بات بھی یاد دلانی پڑتی تھی کہ ہم نے پِٹّو پھوڑ دیا ہے اب بھاگنا ہے۔ پھر اگر غلطی سے کسی نے باجی کو پاس دے دیا تو وہ گیند پکڑ کر پوچھتی تھیں۔ ’’کس کو ماروں؟‘‘
ایک عدد پریشانی یہ بھی ہوتی تھی کہ کہیں گندی بال نانی اماں کے دھلے ہوئے الگنی پر لٹکے کپڑوں سے نہ چھوجائے۔ نانی کو اگر شک بھی ہوجاتا تھا تو پھر سارے کپڑے دوبارہ دھوئے اور پاک کیے جاتے تھے۔
٭…٭
’’آپ کن سوچوں میں گم ہیں؟ گھر آگیا… اُتر آئیے۔‘‘ چھوٹے بھائی نے میرا کندھا ہلایا۔
’’گھر آبھی گیا… اچھا…‘‘ میں نے چاروں جانب دیکھا۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ ہی دروازے سے داخل ہوئے۔ بچے لان میں کرکٹ کھیل رہے تھے اور بال کیچ کرنے نہ کرنے پر جھگڑا چل رہا تھا۔ میرے بھتیجے نے جھلا کر بلا زمین پر پھینکا اور ’’میں نہیں کھیلتا‘‘ کہہ کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ میرا بھائی اسے سمجھانے کو بڑھا تو میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
’’چھوڑو… آپ، یہ خود ہی نمٹالیں گے۔ یہ باتیں ساری زندگی انھیں یاد رہیں گی۔‘‘
ہم دونوں بہن بھائیوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور کچھ لمحے دیکھتے ہی رہے۔ پھر بھائی نے دھیرے سے کہا۔
’’نئے مالک مکان اس گھر کو گرائیں گے۔ وہ علاقہ اب بہت مہنگا ہوچکا ہے۔ وہاں کمرشل بلڈنگ بنے گی۔‘‘
’’کیا؟ نانا نانی کا گھر گرادیا جائے گا؟‘‘ میں نے روہانسی آواز میں پوچھا۔
’’ہاں! زمین پر تو گرادیا جائے گا۔ مگر ہماری یادوں میں ہمیشہ باقی رہے گا۔‘‘ اس نے یہ کہہ کر اندر کی جانب قدم بڑھادیے۔
میں نے بچوں پر ایک نگاہ ڈالی وہ دوبارہ کھیل شروع کرچکے تھے، میں بھی بوجھل قدموں کے ساتھ اندر چل دی۔
٭…٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
پینگیں دیناـ: جھولے میں جھونکا دینا
الگنی: کپڑے لٹکانے کی رسی