وہ لودھی پٹھانوں کے خاندان سے تھے اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ پٹھان قد و قامت اور شکل و صورت کے لحاظ سے اچھے خاصے ہوتے ہیں۔ ٹم ٹم میاں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اچھی بھلی صورت اور مضبوط جسم دیا تھا لیکن اپنی بری عادتوں کی وجہ سے وہ آغا خان کی جگہ ٹم ٹم میاں بن کر رہ گئے تھے۔ اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، پچکے ہوئے گال، الجھے ہوئے بال، ڈھیلے ڈھیلے ہاتھ پاؤں، جھکی ہوئی کمر، بھوسلا بھوسلا رنگ یہ تھا ٹم ٹم میاں کا حلیہ شریف۔ اور اسی عجیب حلیے سے زیادہ ان کی چال تھی، وہ جب چلتے تھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ ڈھیلے پہیوں والی کوئی چھوٹی سی ٹم ٹم نا ہموار سڑک پر ہچکولے کھاتی چلی آ رہی ہے۔
پاکستان بننے سے پہلے خود ان کے قول کے مطابق ان کی زندگی بڑے مزے سے گزر رہی تھی، وہ صبح اٹھ کر حقہ پیتے اور دو ڈھائی گھنٹے کھانسنے کی مشق کرنے کے بعد ٹم ٹم جوت کر ریلوے اسٹیشن پہنچ جاتے اور اسٹیشن سے شہر تک کا ایک پھیرا لگا کر گھوڑا کھول دیتے تھے۔ پھر چاہے کوئی ہزار روپیا بھی دے، ٹم ٹم میاں اپنے گھوڑے کو تکلیف دینے پر راضی نہ ہوتے تھے۔
تم سوچ رہے ہو گے کہ صرف ایک پھیرے میں ٹم ٹم میاں اپنا اور اپنے گھوڑے کا گزارا کیسے کرتے ہوں گے؟ تو اس کا راز یہ تھا کہ خود ٹم ٹم میاں کا خرچ دو آنے کا تمباکو اور تنور کی ایک روٹی سے زیادہ نہ تھا۔ اور ان کا گھوڑا بڑا پکا روزہ دار تھا۔ سال کے365 دن میں ایک دن بھی ایسا نہ آتا تھا جب ٹم ٹم میاں کا گھوڑا سورج کی روشنی میں چارے پر منہ مارتا ہو۔ اس کی افطاری کا انتظام انھوں نے یہ کر رکھا تھا کہ رات کے وقت جب تمام لوگ گہری نیند سو جاتے تھے تو ٹم ٹم میاں اگاڑی پچھاڑی کھول کر اسے آزادی دیتے تھے اور وہ پاس پڑوس کے کسانوں کو سحری کا ثواب پہنچا کر منہ اندھیرے اپنے تھان پر پہنچ جاتا تھا۔ ٹم ٹم جو تنے، حقہ پینے اور کھانسنے کے علاوہ ٹم ٹم کو ایک خاص شوق یہ تھا کہ وہ فرصت کے وقت جال لگا کر جنگلی کبوتر اور دوسرے پرندے پکڑا کرتے تھے اور مختلف قسم کے رنگوں سے ان کے پر رنگ کر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ یہ شوق بہت عجیب تھا لیکن وہ اسے کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔
ہماری ان کی جان پہچان اس طرح ہوئی تھی کہ ترس کھا کر ایک دفعہ ہم ان کی ٹم ٹم میں سوار ہو گئے۔ اگرچہ یہ سواری ہمیں کافی مہنگی پڑی تھی،مارے ہچکولوں کے ہڈیاں پسلیاں نرم ہو گئی تھیں لیکن ٹم ٹم میاں کی باتیں کچھ ایسی پر لطف تھیں کہ جب بھی کسی کام سے لدھیانے جانا ہوتا تھا ہم ڈھونڈ کر انھی کی ٹم ٹم میں سوار ہوتے تھے۔
پاکستان بننے کے بعد لدھیانے آنے جانے کا سلسلہ ختم ہو گیا اور ٹم ٹم بھی ذہن سے اتر گئے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہنسی دل لگی کے لیے لاہور ہی میں اللہ میاں نے ایک اور صاحب سے ہماری ملاقات کرا دی تھی جو ٹم ٹم میاں سے بھی زیادہ دلچسپ تھے اور جن کا نام ہم نے چھکڑے میاں رکھ دیا تھا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ ہم صبح کی سیر کے لیے نکلے تو خیال آیا کہ میاں میر کی نہر کے کنارے چلنا چاہیے اور ریلوے اسٹیشن سے ہوتے ہوئے گڑھی شاہو کی طرف روانہ ہو گئے۔ تم میں سے جن بچوں نے لاہور کی سیر کی ہے انھیں معلوم ہوگا کہ پاکستان کی اس خوب صورت نہر کے بائیں کنارے ایک صاف ستھری سڑک بنی ہوئی ہے ۔ہم اس سڑک پر چلتے ہوئے مسلم ٹاؤن کی آبادی کے قریب پہنچ گئے، سماں ایسا اچھا تھا کہ کیا کہیں۔ صبح صادق کا نور رات کے اندھیرے پر آہستہ آہستہ غالب آ رہا تھا۔ درختوں اور جھاڑیوں کے سیاہی مائل پتوں میں سبزے کی جھلک مارنے لگی تھی۔پھول اپنے اصل رنگوں میں نظر آنے لگے تھے۔ زمیں کا رنگ نکھر گیا۔ غرض سارا ماحول یوں لگ رہا تھا جیسے گہرے سمندر کے نیلے پانی میں کوئی خوب صورت چیز دھیرے دھیرے اوپر ابھر رہی ہو۔
ہمارا ارادہ ابھی اور آگے جانے کا تھا لیکن مسلم ٹاؤن کے پل سے ذرا دور ایک آواز سن کر قدم رک گئے۔
’’بابو جی غریب مہاجر ہوں۔‘‘دوبارہ آواز آئی اور یقین ہو گیا کہ یہ آواز بہت دفعہ سن چکے ہیں۔ جھکی ہوئی کمر والا ایک کمزور انسان کیکر کے درخت سے کمر ٹکائے مسرت بھری نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔
’’ ارے ٹم ٹم میاں!‘‘ ہماری زبان سے بے اختیار نکل گیا۔پاس جا کر غور سے دیکھا تو یہ واقعی ٹم ٹم میاں تھے، لیکن بڑے برے حالوں، کمر اور بھی زیادہ جھک گئی تھی اور چہرے کے گڑھے اور بھی گہرے ہو گئے تھے۔ ہمیں پہچانا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
ٹم ٹم میاں کو اس طرح دیکھ کر ہمیں بہت رنج ہوا اور آگے جانے کا ارادہ چھوڑ کر ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ ٹم ٹم میاں نے اپنی عادت کے مطابق باتیں شروع کر دیں۔
’’دیکھو نا بابو جی! یہ پاکستان کیا بنا ہے۔ ہم تو برباد ہو گئے۔ آپ تو دیکھ ہی چکے ہیں کہ دن رات چین کی بنسی بجاتے تھے۔ کیا اصل گھوڑا اور شاندار ٹم ٹم تھی۔ میں کہتا ہوں کہ ہزار روپے میں تو ایسی ٹم ٹم مل نہیں سکتی۔ پھر اپنا گھر، یار دوست اور رشتے دار سب تباہ ہو گئے۔ بس بابو جی! ہم تو کہیں کے نہ رہے۔ واہ جی واہ! اچھی آزادی ملی۔‘‘
ہمیں معلوم تھا کہ اگر ٹوکا نہ جائے تو ٹم ٹم میاں شام تک ایک ہی لے میں گائے جائیں گے، اس لیے بات کا رخ بدلتے ہوئے بولے:’’ لیکن ٹم ٹم میاں! بھرا ہوا شہر چھوڑ کر تم اس جنگل میں کیوں پڑے ہو؟‘‘
’’ یہاں بابو جی!‘‘
’’ یہاں یہ جگہ تو آبادی سے اچھی خاصی دور ہے۔ آخر کیا آرام سوچا تم نے؟‘‘
’’ آرام کیا سوچتا بابو جی، بس ایک ہی آرام ہے، کہ میرے کبوتر یہاں رہتے ہیں۔‘‘
’’کبوتر؟‘‘ہمیں شک ہوا کہ کہیں ٹم ٹم میاں کا دماغ نہ چل گیا ہو۔
’’ جی ہاں کبوتر۔ آپ کو یاد ہے نا۔ میں لدھیانہ میں کبوتروں اور چڑیوں کے پر رنگ کر چھوڑ دیا کرتا تھا، اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے تو کوئی بچا نہیں۔ یہاں آ کر کبوتروں کا جوڑا البتہ نظر پڑا اور کھوج لگا کر ان کے گھونسلے کے پاس آ پڑا ہوں کہ اس پردیس میں کوئی صورت تو جانی پہچانی نظر آئے۔‘‘
’’ لیکن ٹم ٹم میاں تم آبادی سے دور ایک ویران جگہ کیوں پڑے ہو؟‘‘
’’ اجی آبادی میں رہ کر بھی دیکھ لیا۔‘‘
’’ کیا دیکھ لیا۔‘‘
’’ یہی کہ نہ کسی نے رہنے کو مکان دیا نہ کھانے کو روٹی۔ حکومت بھی پیسے والوں کو سب کچھ دیتی ہے۔‘‘
’’ لیکن ٹم ٹم میاں! خود تم نے اپنی بھلائی کے لیے کیا کیا؟ آدمی کو اپنی بھلائی کے لیے خود بھی تو ہاتھ پاؤں ہلانے چاہئیں۔‘‘’’ وہ کیسے بابو بو؟‘‘
’’تم کہتے ہو ٹم ٹم میاں! کہ تمھارے کبوتر بھی لدھیانے سے تمھارے ساتھ ہجرت کر کے آئے ہیں؟‘‘
’’ ہاں بابو جی! لیکن آپ بات بدل کیوں رہے ہیں۔ میری پہلی بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘
’’ بات نہیں بدل رہے ہم صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان مہاجر کبوتروں کے لیے کون سی حکومت نے گھونسلا بنوایا ہے؟‘‘
’’ حکومت نے تو نہیں بنوایا۔ یہ تو اپنا گھونسلا خود بناتے ہیں۔‘‘
’’ تو میرے یار کیا تم ان پنچھیوں سے بھی گئے گزرے ہو کہ چار برس ہونے کو آئے ، اپنے لیے رہنے کا ٹھکانا تک نہیں بنا سکے! اگر تم ان کبوتروں کی طرح خود اپنے لیے ٹھکانا تلاش کرتے تو کہیں نہ کہیں ضرور مل جاتا۔‘‘
ہماری یہ باتیں سن کر ٹم ٹم میاں کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی۔ انھوں نے کچھ دیر غور کیا اور پھر سر ہلاتے ہوئے بولے:’’ بات تو کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے ، بابو جی!‘‘
’’ کچھ ٹھیک نہیں، بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
’’ واقعی بابو جی! جب بے زبان پنچھی تنکا تنکا کر کے اپنے رہنے کے لیے ایسا اچھا گھونسلا بنا لیتے ہیں جو انھیں سردی گرمی اور برسات میں ہر طرح کا آرام دیتا ہے تو انسان ہو کر ہم کیوں نہیں بنا سکتے۔ بس میں تو آج ہی سے کوشش شروع کرتا ہوں۔‘‘
’’ ٹم ٹم میاں کچھ اور کہنا چاہتے تھے کہ درخت پر پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی اور نیل کنٹھ کا جوڑا اڑ کر دوسرے درخت پر جا بیٹھا۔ انھیں دیکھ کر ٹم ٹم میاں چلائے:’’ دیکھیے بابو جی: یہ رہے میرے کبوتر، میں نے لدھیانے میں ان کے پر گہرے نیلے رنگ میں رنگے تھے۔‘‘
٭٭٭