اردو میں بچوں کے لیے شعری ادب:1947 تا 2022

ریاض عادل

مظاہر فطرت کا بغورمشاہدہ کرنے سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کائنات کسی نظم کے تابع ہے۔دن اور رات کا ایک ترتیب سے آگے پیچھے آنا،سورج،چانداور ستاروں کی اپنے اپنے مداروں میں گردش کرنا، اور موسموں کا ایک ترتیب اور نظم سے آناجانا اس بات کا مظہر ہے کہ یہ پوری کائنات ہی گویاایک نظم ہے۔اسی تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں آنے والے ہر نئے بچے کا ادب سے پہلا تعارف نظم کی صورت میں ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ماں کی لوری کو بچہ شاید اس لیے بھی دلچسپی،انہماک اورغور سے سنتا ہے کیونکہ اس میں بھی ایک خاص لے،سُر،ہم آواز الفاظ کاآہنگ اور ترتیب ہوتی ہے،جو اس کے لیے یقیناًلطف اندوز ہونے اور محظوظ ہونے کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔
جوں جوں بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے،اس کا واسطہ اسی آہنگ اور ترتیب سے پڑتا ہے جو،ان نظموں،کھیلوں اورپہیلیوں کا خاصہ ہوتی ہے،جو اس کی روز مرہ دل چسپیوں کا محور ہوتی ہیں۔یہیں سے اس کونئے نئے الفاظ اور ان کے معانی سے آشنائی ہوتی ہے،جوآگے چل کر اس کے ذخیرہ الفاظ میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔اسکول میں ابتدائی جماعتوں میں پڑھائی جانے والی نظمیں اتنی رواں،سہل اور مترنم ہوتی ہیں،جو بچے کی یاداشت کا لازمی جزو بن جاتی ہیں اور ساری زندگی اسے یادرہتی ہیں۔
مندرجہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ چاہے

سوجا آنکھ کے تارے سو جا
سو جا راج دلارے سو جا

ہو یا

اکڑ بکڑ بمبے بو
اسی،نوے،پورا سو

رب کا شکر اداکربھائی
جس نے ہماری گائے بنائی

ہو یا

اک دونی دونی
دو دونی چار

نظم کی بچے کی زندگی سے گہرا تعلق ہے،اور یہی تعلق آگے چل کرہماری طاقت بھی بن سکتا ہے اور کمزوری بھی۔اگر ہمارے پیش نظر یہ ہو کہ ہم نے اپنے بچوں کی اعلیٰ اخلاقی پیمانوں پر تربیت کرنی ہے؛تاکہ وہ ہمارے معاشرے اور ہمارے ملک کے لیے ایک مفیداور ذمہ دار شہری ثابت ہوں،تو یہ تعلق واقعتا ہماری طاقت ثابت ہوگا۔
اردو میں بچوں کے شعری ادب کی روایت بہت شاندار،توانا اور مستحکم ہے۔بہت سے محققین امیر خسرو کی تصنیف ”خالق باری“ کو بچوں کے لیے پہلی تصنیف؛اور اپنی پہیلیوں اور کہہ مکرنیوں کی وجہ سے انھیں پہلا شاعر مانتے ہیں۔جب کہ ممتاز محقق حافظ محمود شیرانی کی رائے اس کے بالکل برعکس ہے۔وہ ”خالق باری“ کو امیر خسرو کی تصنیف نہیں مانتے۔اس ضمن میں ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی لکھتے ہیں:
”بیشتر محققین اور ادبا جیسے ڈاکٹر مظفر حنفی،ڈاکٹر خوشحال زیدی،ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی،ڈاکٹروحیدمرزا،پروفیسر ممتاز حسین،مولانا محوی صدیقی،ریاض صدیقی اور ضیاالرحمان غوثی نے حضرت یمین الدین امیر خسرو کو ادب اطفال کا پہلا شاعراور ان کی کتاب ”خالق باری“ کو بچوں کے ادب کی پہلی تصنیف قراردیاہے۔البتہ مشہور محقق حافظ محمود شیرانی نے ”خالق باری“ کو امیر خسرو کی تصنیف ماننے سے انکارکردیا ہے اور دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ”خالق باری‘ یمین الدین امیر خسرو کے بجائے ضیاالدین خسرو گوالیاری کی تصنیف ہے۔“
لیکن ڈاکٹر وحید مرزا اور پروفیسر ممتاز حسین جیسے ممتاز محققین نے حافظ شیرانی کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ”خالق باری“امیر خسرو ہی کی تصنیف ہے۔خالق باری اس لحاظ سے روایت ساز کتاب کہی جا سکتی ہے کہ اس کے بعد اسی کی طرز پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔محمداکرام،سید غلام علی شاہ امروہی اور احمدالدین خان نے اپنی کتابوں کا نام ’خالق باری‘ ہی رکھا۔عبد الصمد بیدل کی حمد باری،عبدالسمیع رامپوری کی ’محمدباری‘،حافظ احسن اللہ لاہوری کی ’اللہ باری‘، میر شمس الدین کی’فیض باری‘اورمحمدقصاد کی ’ایزد باری‘اس لحاظ سے نہایت اہم ہیں۔
امیر خسرو سے علامہ اقبال تک بچوں کے شعری ادب کی ایک ایسی کہکشاں جس نے اردو میں بچوں کے ادب کونہ صرف قائم رکھا بلکہ اسے ایک تسلسل سے آگے بھی بڑھایا ہے۔میر تقی میر، نظیراکبرآبادی،انشا اللہ خان انشا،مرزا غالب،محمد اسماعیل میرٹھی،اکبر الہ آبادی اورحامد اللہ افسراسی کہکشاں کے روشن ستارے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعداس شعری روایت کو پروان چڑھانے میں جہاں بہت سے شعرا، بچوں کے لیے اخبارات کے ہفتہ وار ایڈیشن اور پندرہ روزہ ایڈیشن نے اپنا بھرپورکرداراداکیا،وہیں بچوں کے رسائل بالخصوص تعلیم وتربیت اور نونہال کا کردار بہت مثالی ہے۔اس ضمن میں پندرہ روزہ ہدایت اورنونہال لیگ کا ذکر نہ کیا جائے تویہ یقینا زیادتی ہوگی۔ پندرہ روزہ ہدایت محمد نصیر ہمایوں کے صاحب زادے محمد احسن نے ۷۳۹۱ء میں جاری کیا تھا،مگر قیام پاکستان کے بعد سے اور بالخصوص جب سید نظرزیدی اس کے مدیر مقرر ہوئے تو اس نے حقیقی معنوں میں بچوں کے ادب کی ترجمانی کی۔
شفیع عقیل ۰۵۹۱ء میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے،تو بچوں کے صفحے کے انچارج مقرر ہوئے۔اس کا دلچسپ احوال وہ اپنی کتاب”نامور ادیبوں اور شاعروں کے نایاب مضامین“ کے دیباچے، بعنوان ”کچھ اپنی طرف سے“،میں لکھتے ہیں:
”بچوں کے صفحے کی ترتیب و تشکیل میرے فرائض میں شامل ہوئی لہٰذامیں ’بھائی جان‘ بن گیا۔جنگ میں بچوں کا صفحہ پہلے سے شائع ہوتا تھالیکن اس میں سلیقہ تھا اور نہ قرینہ تھا۔مجھے چونکہ خود لکھنے پڑھنے کا شوق تھا،اس لیے میں نے باقاعدہ پروگرام کے تحت بچوں کا صفحہ مرتب کرنا شروع کردیا۔اس کا نام ’نونہال لیگ‘ رکھااور اسی نام سے نوعمر لکھنے والوں کی تنظیم قائم کی۔“
ماہنامہ بھائی جان کی ابتداجون ۱۵۹۱ء میں ہوئی،جسے ایک طرح سے نونہال لیگ کی توسیع قرار دیا جاسکتا ہے۔شفیع عقیل کی نونہال لیگ اور بھائی جان سے ایسے بہت سے لوگوں نے لکھنے کا آغاز کیا جو بعد میں علم وادب کے میدان کے شہسوار بنے۔اس ضمن میں شفیع عقیل لکھتے ہیں:
”لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے،جنھوں نے اپنی ابتدا ’نونہال‘اور’بھائی جان‘ سے کی۔سارے نام تو مجھے یاد نہیں ہیں؛کیونکہ بہت سوں نے بعد میں اپنے نام تبدیل کرلیے پھر بھی چند نام ملاحظہ ہوں:
حسینہ معین، عبیداللہ علیم، محسن بھوپالی،رشیدہ رضویہ، مستنصر حسین تارڑ، اطہر شاہ خان، نسیم درانی، افسر آذر، نعیم آروی، علی ظفر جعفری، عبدالقیوم شاد، غازی صلاح الدین، انور شعور(اس وقت انور افسری)،قمرعلی عباسی (اس وقت قمر امروہی)،رضا علی عابدی، خالدہ شفیع، عفت گل اعزاز، نوشابہ صدیقی، محمد عمر میمن (اب ڈاکٹر محمد عمرمیمن)، طلعت اشارت، سعدیہ صدیقی، راشدہ ظفر، نسرین حبیب، فیروزہ جعفر (اس وقت فیروزہ نقوی)، انور احسن صدیقی، یونس شرر، غلام محی الدین نظر، فضل الہٰی بہار، سمیع انور، رضوان صدیقی، شائق الخیری، سحر رومانی، یونس ہمدم، اجمل اعجاز، عتیق اللہ شیخ، غفران امتیازی، قدیر غوثی اور دیگر کئی نام ہیں۔“
مندرجہ بالا ناموں پر نظر ڈالنے سے دو باتیں بخوبی واضح ہوتی ہیں:ایک یہ کہ قیام پاکستان کے بعد فروغ ادب اطفال میں ”نونہال لیگ“ اور ”ماہنامہ بھائی جان“ کا کردار انتہائی اہم ہے اور دوم یہ کہ ملک کے نامور ادیبوں نے اپنے لکھنے کی ابتدا بچوں کے اد ب ہی سے کی۔
ماہنامہ آنکھ مچولی کی ایک وجہ شہرت اس کے خصوصی نمبربھی ہیں،مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شفیع عقیل نے ۰۵ء اور ۰۶ء کی دہائیوں میں ماہنامہ بھائی جان کے ایسے شان دارنمبر نکالے جو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں،اور میرے خیال میں انھی کی پیروی میں بہت سے رسائل،بشمول آنکھ مچولی،نے بھی کی۔ہرسال جنوری میں ”سال نو نمبر“اور اگست میں ”سالنامے“ کے ساتھ”بچپن نمبر(۲۵۹۱ء)“،”شرارت نمبر(۴۵۹۱ء)“،”جھوٹ نمبر(۸۵۹۱ء)“،”پٹائی نمبر(۹۵۹۱ء)“،”لطیفہ نمبر(۰۶۹۱ء)“اور”انتخاب نمبر(۱۶۹۱ء)“قابل ذکر ہیں۔
ماہنامہ تعلیم وتربیت بھی قیام پاکستان سے بہت پہلے اپنی اشاعت کا آغاز کرچکاتھا مگر حقیقی معنوں میں سعید لخت کے مدیر مقرر ہونے کے بعد اس نے اپنا ایک منفرد تشخص حاصل کیا۔ فروغ ادب اطفال میں اس ماہنامے کا کردار بھی بہت اہم اور نمایاں ہے۔نذیر انبالوی اپنے مضمون”اردو میں بچوں کا ادب،۶۷۹۱ء تا ۰۰۰۲ء ایک جائزہ“میں لکھتے ہیں:
”اگر ہم غیر جانب داری سے جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بچوں کے لیے جو ادب منظر عام پر آیا اس میں زیادہ تر بچوں کے رسائل اور اشاعتی اداروں کی کتب کے ذریعے سے بچوں تک پہنچا۔اس سلسلے میں اہم رسالہ ماہنامہ”تعلیم و تربیت“ ہے جس کا آغاز جنوری1928 میں مولوی فیروز الدین نے لاہور سے کیا تھا۔ اس کو ابتدا میں اسکولوں کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے شائع کیا جاتا رہا مگر1941 میں ”تعلیم و تربیت“ کو صرف بچوں کے لیے شائع کیا جانے لگا۔ مقبول انور داؤدی اس کے پہلے مدیر مقرر کیے گئے۔ بچوں کا یہ تاریخی رسالہ اب تک پوری آب و تاب سے شائع ہو رہا ہے۔“
۳۵۹۱ء سے اپنی اشاعت کا آغاز کرنے والے تاریخ ساز رسالے ”ماہنامہ نونہال“ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے آغاز ہی سے مسعوداحمد برکاتی جیسے کہنہ مشق مصنف اور مدیر کی خدمات حاصل تھیں،جس کی بدولت اس کے مواداور موضوعات کے معیارکو ایک مثال کے طورپرپیش کیا جاسکتا ہے۔بھائی جان کی طرح نونہال نے بھی نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ تیار کی جس نے آگے چل کر علم وادب کے میدان میں اپنا نام پیدا کیا۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ، مجیب ظفرانوار حمیدی، عقیل عباس جعفری، عرفان عزیز عرفی،مصطفی چانداورغلام حسین میمن کے نام اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔
بچوں کے لیے شعری ادب تخلیق کرنے کی روایت جو اسماعیل میرٹھی سے اقبال تک آئی قیام پاکستان کے بعدخواجہ عابد نظامی،سید نظر زیدی، شاعر لکھنوی، سرور بجنوری، فضل الہٰی بہار،رفیق احمد خاں،سید اشرف بیتھوی، فیض لودھیانوی، تسنیم قریشی، امتیاز علی تاج،صوفی غلام مصطفی تبسم، ابن انشا،امان اللہ نیئر شوکت، روحی کنجاہی، رمضان گوہر، ارشاد الحق قدوسی، اثر جونپوری، آغا شیدا کاشمیری، عبدالغنی شمس، عظمت عزمی، شبیر بیگ ناز، غلام محی الدین نظر،غنی دہلوی، عنایت علی خان،افق دہلوی،بشیر سیفی،شان الحق حقی، تاج انصاری، زاہد الحسن زاہد، تنویر پھول، ضیا الحسن ضیا، ضیغم حمیدی، حسن عابدی، ریاض حسین قمر، جاوید امتیازی، حفیظ الرحمان احسن، خالد بزمی،قتیل شفائی،امجد اسلام امجد، خانزادہ سمیع الوریٰ، عباس العزم، عبدالحفیظ ظفر، احمد حاطب صدیقی،فرحت شاہ جہان پوری، عبدالقادر، قمر ہاشمی، قیوم نظر، محمدانواراحمد، محمد جاوید خالد، محمد عارف قریشی، ناصر زیدی، نفیس فریدی، شاہ نواز فاروقی، امان اللہ خان دل اور شریف شیوہ نے نہ صرف اسے برقرار رکھا بلکہ اسے پروان چڑھانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کیں۔
بچوں کے لیے شعر کہتے وقت ان کی دلچسپیوں، مشاغل،کھیلوں اور ان کی نفسیات کو مدنظر رکھنا انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔اسماعیل میرٹھی کے بعد صوفی تبسم کو اس حوالے سے جو شہرت نصیب ہوئی وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔صوفی تبسم کے بعد احمد حاطب صدیقی اسی روایت کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔بچوں کے پسندیدہ موضوعات کے حوالے سے مختلف شعرا نے اپنی تئیں بہت محنت اور ہنرکاری سے نظمیں لکھی ہیں،جو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں نے بھی بے حد پسند کیں۔نظم کہانی کی جو روایت اسماعیل میرٹھی نے پروان چڑھائی تھی،اسے صوفی تبسم نے بام عروج تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ایک ہی نظم میں چھوٹے بچوں کے لیے گنتی،حساب اور کہانی کا حسین امتزاج دیکھیے:
پانچ چوہے گھر سے نکلے، کرنے چلے شکار
ایک چوہا رہ گیا پیچھے، باقی رہ گئے چار
چار چوہے جوش میں آکر لگے بجانے بِین
اک چوہے کو آگئی کھانسی، باقی رہ گئے تین
تین چوہے ڈڈر کر بولے:”گھر کو بھاگ چلو!“
اک چوہے نے بات نہ مانی، باقی رہ گئے دو
دو چوہے پھر مل کر بیٹھے،دونوں ہی تھے نیک
اک چوہے کو کھا گئی بلی،باقی رہ گیا ایک
اک چوہا جو رہ گیا باقی،کر لی اس نے شادی
بیوی اس کو ملی لڑاکا،یوں ہوئی بربادی
احمد حاطب صدیقی کی ایک نظم ”بدھو سی ایک بچی“سے کچھ اشعار دیکھیے:
سیما نے مجھ سے پوچھا
اے میرے پیارے چچا
یہ روز آپ مجھ کو
دیتے تھے کیسا غچا
کہتے تھے کررہاہوں
وعدہ میں تم سے سچا
جنگل کے پیڑ پرسے
بندر کا ایک بچہ
لاؤں گا توڑکرمیں
لیکن ابھی ہے کچا
جواب میں بھتیجی اپنے چچا کو بتاتی ہے کہ وہ اب کوئی ننھی منی بدھو سی بچی نہیں رہی، اس نے چچی سے اس بارے میں سب پوچھ لیا ہے۔نظم کتنی معصومیت سے ختم ہوتی ہے:
چچی نے خود ہیں دیکھے
بندر کے انڈے بچے
بندریا انڈے دے دے
جب گھونسلوں کے اندر
بنتے ہیں پہلے چوزے
پھر پیارے پیارے بندر
چوہے اور شیر کی کہانی بہت مشہور ہے اور ہمارے ہاں ابتدائی جماعتوں کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ بچوں کے معروف شاعر تاج انصاری نے اس بڑی خوب صورت سے منظوم کیا ہے۔ اس منظوم کہانی کے کچھ شعر:
سنو ایک دن کا ہے یہ ماجرا
تھا اک شیر جنگل میں سویا ہوا
ہوا ایک چوہے کا واں سے گزر
پڑی شیر پر جونہی اس کی نظر
لگا شیر کے منہ پہ دُم پھیرنے
تو گھبرا کے انگڑائی لی شیر نے
اٹھا شیر غصے میں بپھرا ہوا
لیا اپنے پنجے میں اس کو دبا
پکارا یہ چوہا:”خطا بخش دو
مجھے چھوڑکر تم دعا میری لو
سلامت یہاں سے جو میں جاؤں گا
تمھارے میں اک روز کام آؤں گا“
ہمارے ہاں کے موسموں کو بھی شعرا نے اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہے۔سردی، گرمی، برسات، بہاراور خزاں کے موضوع پر بے شمار نظمیں لکھی گئیں۔رمضان گوہر کی نظم ”بہارآئی“ سے یہ شعردیلھیے:
دیکھو بہار آئی
ہر چیز مسکرائی
جنگل ہرا بھرا ہے
مہکار دے رہا ہے
کلیاں چٹک رہی ہیں
شاخیں لچک رہی ہیں
ہرپھول گیت گائے
ہر غنچہ لہلہائے
بچوں کے ہر دل عزیز اور کہنہ مشق شاعر جناب ضیا الحسن ضیا کی نظم”ساون“ سے کچھ شعر ملاحظہ کیجیے:
باغ کی سیر کو آج جائیں گے ہم
جھولا جھولیں گے ساون منائیں گے ہم
ننھی بوندوں سے سبزہ نکھر جائے گا
خوب سبزے پہ دوڑیں لگائیں گے ہم
ساتھ آموں کے لے جائیں گے ٹوکرے
پانی برسے گا اور خوب کھائیں گے ہم
بہتے پانی میں گڑیا کو ہم چھوڑکر
مُنی باجی کو تھوڑا ستائیں گے ہم
زاہد الحسن زاہد کی نظم ”گرمی کا موسم“ سے کچھ شعر:
ہر اک چیز گرمی سے تپنے لگی ہے
جدھر آنکھ اٹھتی ہے لُو چل رہی ہے
چمن میں سبھی پھول مرجھا رہے ہیں
وہ لُو ہے کہ غنچے جلے جا رہے ہیں
لحاف اور کوٹ اور جرسی، سویٹر
ٹرنکوں میں رکھے ہیں ہم نے چھپاکر
سبق آموز اور نصیحت آموزنظمیں بھی بچوں کے شعری ادب کا اہم جزو تصور کی جاتی ہیں۔بچوں کے لیے لکھنے والے تقریباً سبھی شعرا نے نصیحت آموز نظمیں لکھ رکھی ہیں۔ عباس العزم کی نظم”وقت بڑا انمول“ سے چند شعر دیکھیے:
وقت بڑا نمول ہے پیارے
وقت بڑا انمول
وقت کا اب پیغام یہی ہے
اور صلائے عام یہی ہے
کان ذرا اب کھول
وقت بڑا انمول
وقت پہ اپنا کام کیے جا
صبح کیے جا، شام کیے جا
کر مت ٹال مٹول
وقت بڑا انمول
قیوم نظر کی نظم”سچ بولو“ سے کچھ منتخب شعر دیکھیے:
کوئی بڑا ہو یا چھوٹا ہو
اس سے جب کچھ کہنا چاہو
پہلے سوچو، پھر منہ کھولو
اور سچ بولو
سچ کا ہمیشہ بول ہو بالا
سچ سے خوش ہو اللہ تعالیٰ
حکم ہے اس کا پورا تولو
اور سچ بولو
گڑیا،چاند، ستارے، غبارے، دھنک،جگنو،بلی، چوہا، شیر، گھوڑا، ریچھ، توتا، چڑیا اور تتلی وغیرہ بھی ایسے موضوعات ہیں جو بچوں کی دل چسپیوں کا محور ہوتے ہیں اور بہت سے شعرا نے ان موضوعات بہت خوب صورتی سے برتا ہے۔بچوں کے لیے معیاری اور دلچسپ نظمیں لکھنے والے شاعر جناب خالد بزمی کی نظم”چاند“ سے یہ شعر دیکھیں:
اپنا نور بکھیرے چاند
کردے دور اندھیرے چاند
رات کہاں سے آتا ہے؟
جائے کہاں سویرے چاند
امی جب مجھ سے خوش ہوں
تب کہتی ہیں:”میرے چاند“
رفیق احمد خاں کی نظم”میرا گھوڑا“سے کچھ شعر دیکھیے:
ہے کیسا بانکا، ہے کتنا پیارا
مانگے نہ پانی، کھائے نہ چارا
چلتا ہے فرفر، پاکر اشارا
کھایا ہے اب تک چابک نہ کوڑا
ہے کتنا اچھا لکڑی کا گھوڑا
ریاض حسین قمر کی نظم”تتلی“ سے چند شعر:
چمن میں اڑتی ہے رنگین تتلی
ہے خوشبو کی بڑی شوقین تتلی
ہے ریشم کی طرح نرم و ملائم
اسی سے باغ کی رونق ہے قائم
اگرچہ ہے ذرا سی جان اس کی
حسیں رنگوں سے ہے پہچان اس کی
ضیغم حمیدی کی نظم”بلی“ سے چند شعر دیکھیے:
بچو تم نے دیکھی ہو گی بھولی بھالی بلی
گورے، کالے، پیلے، بھورے رنگوں والی بلی
دودھ کا اپنے سامنے دیکھے جب یہ ایک پیالہ
غٹر غٹر پی جائے سارا نٹ کھٹ شیر کی خالہ
خوب کہاوت ہے”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“
چوہے کو فوراً کھا جائے، کچھ نہ کبھی یہ سوچے
ریاض عاد ل کی نظم”مٹھو بھی عید منائے گا“سے کچھ شعر دیکھیے:
اٹھے گا اور نہائے گا
اللہ کی حمد سنائے گا
کش مش کے مزے اڑائے گا
پھر خوب سویاں کھائے گا
گھر بھر سے عیدی پائے گا
مٹھو بھی عیدمنائے گا
ننھی کے پاس یہ جاتاتھا
گڈو کو روز جگاتا تھا
پھر سحری کھانے آتا تھا
سحری میں چوری کھاتا تھا
اب دن بھرچونچ ہلائے گا
مٹھو بھی عیدمنائے گا
قتیل شفائی اردو ادب کا معتبر حوالہ ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی بے شمار نظمیں لکھی ہیں۔ ایک نظم”توتے نے توپ چلائی“ سے کچھ منتخب اشعار:
توتے نے توپ چلائی
توتے نے توپ چلائی
وہ دیکھو میدان میں اترا،لے کر نئی امنگ
کوئی نہیں ہے اس کا دشمن، پھر بھی چھیڑے جنگ
چھوٹے سے اس پنچھی نے کردیا ہے سب کو دنگ
چونچ میں لے کر چنگاری، بارود میں آگ لگائی
توتے نے توپ چلائی
امی، ابو، آپی، بھیا، دادا، دادی، نانا، نانی،چچا، چچی اور ماموں ایسے رشتے ہیں جن پر بچوں کے لیے بے شمار نظمیں کہی گئی ہیں۔سید نظر زیدی نے بچوں کے لیے بیشمار لکھا اور دلچسپ لکھا۔ ان کی نظم”ماں کی عظمت“ سے یہ منتخب شعر دیکھیے:
ماں کے پیروں میں جنت ہے، بلکہ ماں ہی جنت ہے
دکھ سہہ کر سکھ دینے والی ماں اللہ کی رحمت ہے
پیار کی میٹھی لوری دے کر، سکھ کی نیند سلائے ماں
اچھی چیزیں سب بچوں کی،روکھی سوکھی کھائے ماں
جس نے ماں کا کہنا مانا، وہ اونچا انسان بنا
جس نے ستایا اپنی ماں کو وہ پکا شیطان بنا
فرحت شاہ جہان پوری اپنی موضوعاتی نظموں کی وجہ سے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ان کی نظم ”دادی اماں“ سے یہ اشعار دیکھیے:
مری دادی ماں ہیں پیاروں سے پیاری
وہ گھر کی بڑی ہیں، وہ گھر کی دلاری
وہ پہلے زمانے کی زندہ نشانی
وہ تہذیب و اخلاق کی رُت سہانی
سلام ان کو میں نے کیا اک سویرے
تو خوش ہو کے بولیں کہ اے لال میرے
سدا خوش رہو تم، سلامت رہو تم
سدا اس گھرانے کی عزت رہو تم
برائی کی باتوں سے تم دور رہنا
تم اچھوں کی صحبت میں مسرور رہنا
اس کے علاوہ بھی بچوں کے لیے شعری ادب کے موضوعات کا ایک جہان ہے لیکن طوالت کے خدشے کے پیش نظر میں اپنی معروضات انھی الفاظ پر ختم کرتا ہوں کہ نئے لکھنے والوں کے عزم سے یہ لگ رہا ہے کہ بچوں کے شعری ادب کی روایت،جب تک اردو زبان زندہ ہے، زندہ و تابندہ رہے گی۔

٭٭٭

حوالہ جات
۱۔اردو میں بچوں کا ادب۔ڈاکٹر خوشحال زیدی۔اردو اکیڈمی دہلی۔۹۸۹۱ء۔
۲۔بچوں کے ادب کی تاریخ۔داکٹر سید اسرارالحق سبیلی۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی۔۶۱۰۲ء۔
۳۔ نامور ادیبوں اور شاعروں کے نایاب مضامین۔شفیع عقیل۔فکشن ہاؤس۔۸۹۹۱ء۔
۴۔اردو میں بچوں کا ادب،۶۷۹۱ء تا ۰۰۰۲ء ایک جائزہ۔نذیر انبالوی۔مطبوعہ سہ ماہی ادبیات اطفال،شمارہ نمبر ۹۱،اکتوبر تا دسمبر۱۲۰۲ء۔