ببلی کی گمشدگی

اعظم طارق کوہستانی

سات سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے کہانی

یہ اس دفعہ کی گرمیوں کا تذکرہ ہے جب احمد اپنی خالہ کے گھر آیا ہوا تھا۔ خالہ کا گھر پنجاب میں واقع تھا۔ یہ پنجاب کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور گاؤں کا ہر فرد دوسرے فرد کو جانتا تھا۔ احمد کو یہی باتیں بہت متاثر کرتی تھیں۔ اس لیے ہمیشہ چھٹیوں میں وہ خالہ کے گھر جانے کی ضد کرتا۔ اس بار بھی خالو کراچی آئے تو احمد کو اپنے ساتھ گاؤں لے آئے۔
گاؤں میں خالو کا ایک فارم ہاؤس تھا۔ جس میں طرح طرح کے جانور موجود تھے۔ گائیں، بکریاں، بیل، بھیڑیں، خرگوش، مرغیاں اور حتیٰ کہ کئی بلیاں بھی موجود تھیں۔
ان بلیوں میں ’ہینو‘ نام کی بلی کو اس وقت خاص اہمیت حاصل تھی۔ چھوٹے جانور اَناج ذخیرہ کرنے والی جگہ میں رہتے تھے لیکن ’ہینو‘ باورچی خانے کے اندر ایک گتے کے ڈبے میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ ان بچوں کو دنیا میں آئے ابھی تین ہفتے ہوئے تھے۔ بچے بہت معصوم اور نازک سے تھے۔ بچوں کو ٹھیک سے چلنا بھی نہیں آتا تھا، ابھی تو صرف اُنھوں نے رینگنا شروع کیا تھا۔ ان بچوں میں ایک بچے کا نام ببلی تھا۔ ببلی کالے رنگ کی بلی تھی اس کے پیر اور منھ کا کچھ حصہ سفید تھا جس کی وجہ سے وہ دیگر بچوں سے بہت پیارا لگتا تھا۔
ایک دن احمد نے آکر ہینو اور اس کے بچوں کو دیکھا۔ ہینو کہیں باہر گئی ہوئی تھی۔
’’ارے یہ کیا۔‘‘ احمد کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ ببلی غائب تھی۔احمد نے فوراً جاکر خالہ کو بتایا تو خالہ نے احمد کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’میرے خیال میں ’ہینو‘ خود ہی ببلی کو لے کر باہر گئی ہوگی۔ اکثر بلیاں بچوں کی جگہ تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ ایسے موقع پر وہ بڑی احتیاط سے اپنے بچوں کو منھ سے پکڑ کر لے جاتی ہیں۔‘‘
احمد کو پھر بھی چین نہ آیا اور اس نے ببلی کی تلاش شروع کر دی۔ اس نے بلیوں کے باڑے میں دیکھا۔ بھیڑیوں کے پاس گیا۔ سیڑھی لگا کر چھت پر دیکھا لیکن ببلی کہیں بھی نہ ملی۔ مایوس ہو کر احمد واپس آگیا۔ لیکن خوشی کی ایک خبر یہ تھی کہ ہینو آچکی تھی اور بچوں کو دودھ پلا رہی تھی لیکن ان بچوں میں اب بھی ببلی موجود نہیں تھی۔
’’یا اﷲ ! یہ ببلی کہاں چلی گئی، بے چاری بھوکی ہوگی۔‘‘
احمد نے ایک بار پھر تلاش شروع کر دی۔ پورے فارم ہاؤس کا چکر لگانے کے بعد احمد مرغیوں کے دڑبے کے پاس آیا۔ نارنجی رنگ کے ایک ڈبے میں مرغی صاحبہ آرام سے بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنے بچوں کو اپنے پروں میں چھپا رکھا تھا۔
احمد نے ایک اچٹتی ہوئی نظر مرغی پر ڈال کر آس پاس دیکھا، لیکن وہ چونک پڑا۔ اب کی بار اس کی نظر مرغی کے پروں میں چھپے بچوں پر پڑی۔ ان بچوں میں ایک قدرے بڑا بچہ نظر آیا۔ یہ بچہ کالا کالا تھا۔
’’ارے باپ رے یہ تو ببلی ہے۔‘‘ احمد اچھل پڑا۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر ببلی کو پکڑنا چاہا۔
مرغی نے احمد کے ہاتھ پر زور سے ٹھونگ ماری۔ وہ احمد کی اس حرکت پر غصہ ہورہی تھی۔
’’ارے بی مرغی! یہ تمھارا بچہ نہیں ہے۔ یہ تو ہینو کی ببلی ہے۔‘‘
لیکن بھلا مرغی کو اس کی بات کہاں سمجھ میں آئی۔ اس نے احمد کی دوسری کوشش پر اُسے پھر زور سے ٹھونگ ماری اور منھ سے ’کٹ کٹ‘ کی آواز نکالی کہ احمد اب باز آجاؤ ورنہ…
احمد دوڑتا ہوا خالہ کے پاس گیا اور انھیں ساری بات بتا دی۔
خالہ مسکرائیں۔ انھوں نے جاکر ببلی کودیکھا اور پھر احمد سے کہا:
’’ میرے خیال میں ببلی کو بی مرغی کا یہ نارنجی اور گھاس پھوس کا گھر بہت پسند آگیا ہے۔‘‘ خالہ نے احمد کو مشورہ دیا۔ ’’بالکل ایسا ہی گھر ہینو کے لیے بھی بنا دو۔‘‘
احمد نے ایسا ہی کیا۔ اب ببلی کبھی اپنی امی ہینو کے پاس ہوتی اور کبھی بی مرغی کے پروں کے نیچے آرام کرتی۔ احمد جانوروں کی اس محبت پر سخت حیران تھا اور مسکرا رہا تھا کہ وہ شہر جا کر اپنے دوستوں کو یہ بات ضرور بتائے گا۔

٭…٭

(مرکزی خیال ماخوذ)