سات سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے کہانی
سچ کہوں تو میں اتنا بھوکا نہیں ہوں کہ انسان جیسی بھوکی مخلوق کے کھانے کی چیز پر منھ ماروں… یہ تو میری چھوٹی بہن ایمی ہے جو انسان کے بچیوں یعنی لڑکیوں جیسی چٹوری ہے۔ بسکٹ، ٹافیاں، بادام، چلغوزے، پنیر، مکھن، ڈبل روٹی اور حتیٰ کہ کاغذ تک کھا لیتی ہے۔
حالانکہ ہم کوئی اتنے غریب چوہے بھی نہیں ہیں۔ ہمارا بینک بیلنس بھی اچھا ہے۔ یہ میرا لباس ہی دیکھ لیں۔ کبھی آپ نے چوہوں کو کپڑوں میں دیکھا ہے۔ نہیں ناں… لیکن ہمیں دیکھ لیں کہ ہم کپڑے پہنتے ہیں اور ہر چیز دھو کر اچھے انداز سے کھاتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ نے ہمیں سکھایا ہے کہ کچھ بھی کھانے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چاہییں۔ یہ تو انسان کے بچے ہیں ۔ عجیب سے، نہ تو اپنی امی کی بات سنتے ہیں اور نہ ابو کی۔ اس لیے آئے دن نقصان اٹھاتے رہتے ہیں۔
خیر سچ کہوں تو انسانوں میں جو برائیاں پیدا ہوتی ہیںان کے اثرات ہمارے معاشرے پر بھی پڑتے ہیں۔کیوں کہ ہمارا گزارا انسانوں کے بغیر نہیں ہوتا۔ جہاں انسان رہے گا ہم بھی وہیں رہیں گے۔ سچ پوچھیے تو ہمارا سارا معاشی نظام انسانوں کے باورچی خانے پر کھڑا ہے۔
میں باتوں ہی باتوں میں کہاں سے کہاں نکل گیا۔ لیمی ٹھیک ہی کہتی ہے کہ میں باتیں بہت کرتا ہوں اور پتا نہیں باتوں میں کہاں سے کہاں نکل جاتا ہوں۔
ہاں تو وہ ایک چمکتی ہوئی دوپہر تھی۔ میری بہن لیمی نے مجھے اُکسایا کہ میں مرزا صاحب کے باورچی خانہ سے کچھ چیزوں کا صفایا کرنے میں اس کی مدد کروں۔
میرا ارادہ ہر گز یہ نہیں تھا کہ میں اس کی بات مانوں لیکن اس نے مجھے دھمکی دی کہ وہ ابو کو بتا دے گی کہ میں اکثر دوپہر کو سومی کے ساتھ بڑے نالے میں نہانے جاتا ہوں۔
ہم چوہوں کے بچے بھی دوپہر میں چپکے چپکے شرارتیں کرتے ہیں ۔ پھرجس طرح انسانوں میں بہنیں اپنے بھائیوں کو بلیک میل کرتی ہیں اس طرح ہماری بہن بھی ہمیں بلیک میل کررہی تھیں۔
ایک وجہ اور بھی تھی کہ گندے نالے میں نہانا اتنا خطرناک نہیں تھا جتنا مرزا صاحب کے باورچی خانہ میں گھسنا۔ کیوں کہ مرزا صاحب کی بیگم انتہائی خطرناک تھیں۔ وہ ہمیں ہمیشہ انتہائی طاقتور لگتی۔ کیوں کہ وہ بہت موٹی تھی اور ہر وقت کھاتی رہتی تھی۔ اس لیے کچن ہر وقت کھانے کی مزیدار چیزوں سے بھرا رہتا تھا۔
ابو نے ہمیں انسانوں سے بچنے کی نصیحت کررکھی تھی۔ ہر ہفتے کی رات ہمارے خاندان کی میٹنگ ہوتی جس میں انسانوں کی مکاریوں پر تفصیلی بحث ہوتی کہ ہم شریف چوہوں کو ختم کرنے کے لیے انسان کیا گل کھلارہا ہے۔جیسے جیسے ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے۔ انسانوں نے چوہوں کو چپکے سے موت کے گھاٹ اتارنے کے مختلف طریقے اور حربے استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ابو کی سخت تنبیہ کے باوجود ہم اس چمکتی دوپہر میں مرزا کے باورچی خانہ کی طرف بڑھے۔ ہمیں خطرہ صرف مرزا کی بیگم کا تھا۔ وہ کہیں ہمیں بھی کھانے کی چیز سمجھ کر نہ کھا جائیں۔
’’ لیمی! اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں!‘‘
’’تم خواہ مخواہ ڈر رہے ہو۔ کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
ہم نے چپکے سے دروازہ کھولا۔ اتنی زیادہ کھانے کی چیزیں دیکھ کر لیمی کے منھ میں جو پانی آیا سو آیا، ہمارا منھ بھی بھر آیا۔
’’آہا… اب خوب مزہ آئے گا۔‘‘ لیمی رال ٹپکاتے ہوئے بولی۔
’’چلو تم… کھاؤ جلدی۔ میں نگرانی کرتا ہوں۔‘‘ میں نے لیمی سے کہا۔
بھوکی لیمی میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے پنیر پر ٹوٹ پڑی۔ لیمی نے توندیدے پن کی حد کردی۔ مجھے پوچھا تک نہیں۔ جب دس منٹ گزر گئے اور لیمی نے بس رکنے پر پر تیار نہ ہوئی مجھے سخت غصہ آنے لگا۔ اس لیمی کو ابھی سبق سکھاتا ہوں۔
’’لیمی بھاگو! مالکن جھاڑو لے کر آرہی ہیں۔‘‘
میں نے چیخ کر کہا اور باہر کی جانب دوڑ لگا دی۔ دوڑتے ہوئے میں جیسے ہی ایک موڑ مڑا۔ مجھے مالکن آتی دکھائی دی۔میرے منھ میں خاک…میں تو مذاق کر رہا تھا یہ کیا ہوا۔ ایک لمحے کے لیے دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
جھاڑو کا وار مجھ سے پانچ ،چھہ انچ سائیڈ پر پڑا تھا۔مالکن اکیلے نہیں آئی تھی، ساتھ میں ہتھیار بھی لائی تھی۔
’’او مارا گیا۔ بھاگو…! ‘‘
میں چیختا ہوا واپس پلٹا کہ لیمی کی جان بچاؤں۔ لیکن جیسے ہی مڑا لیمی مجھ سے سے ٹکرائی۔
’’اُف میری ناک… لیمی کی بچی!‘‘ میں کراہ کر رہ گیا۔
’’بھاگوبھائی!‘‘ لیمی نے میرا ہاتھ کھینچ کر جھاڑو کے دوسرے وار سے بچایا۔اب ہم دونوں جتنی تیزی سے بھاگ سکتے تھے، بھا گ لیے۔
’’ابو ٹھیک ہی کہتے تھے کہ انسان کا کوئی اعتبار نہیں ۔ ‘‘
ہمیں مارتے ہوئے ان کے دل میں ذرا رحم نہیں آتا۔‘‘
’’ہاں ابو کی بات نہ ماننے کا انجام بہت برا ہوتا ہے، چاہے وہ ایک چوہے کے ابو ہوں یا انسان کے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ابو کو مت بتانا… اور دل میں وعدہ کرو کہ ہم آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔‘‘
میں نے اور لیمی نے وعدہ کیا کہ انسان سے بچ کر رہیں گے اور انسانوں کی طرح اپنے والدین کا دل بھی نہیں دکھائیں گے۔
٭…٭