گرمیوں کے دن تھے۔ ہر طرف گرم لو چل رہی تھی۔تپتی دوپہر میں چرند پرند ٹھنڈک کے لیے درختوں کی پناہوں میں چھپے بیٹھے تھے۔ زارا اپنے امی بابا اور بہن بھائیوں کے ساتھ گاؤں آئی ہوئی تھی۔ دوپہر کا سناٹا ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ جیسے جیسے سورج مغرب کی طرف بڑھ رہا تھا ویسے ویسے ہلچل میں غیر محسوس اضافہ ہو رہا تھا۔ اچانک گلی میں بے ہنگم شور اٹھا۔ زارا اور ارسل بھاگتے ہوئے دروازے تک گئے۔
”ارے ارے بچو! آرام سے، گرمی کم کرنے کا یہ بہانہ تو ہر تیسرے دن ہی ہوتا ہے۔ پتا نہیں بارش کب آئے گی۔“ تائی امی کی آواز سنائی دی۔
سب گھر والے صحن میں آ چکے تھے۔ صحن کافی بڑا تھا۔ ایک طرف چھوٹی چھوٹی کیاریاں بنی ہوئی تھیں جن میں موسمی سبزیوں کے ساتھ ساتھ ننھے منے پودوں پر سبز مرچیں بھی نظر آ رہی تھیں۔ کیاریوں سے ذرا ہٹ کر گلاب کے پودے لگائے گئے تھے۔ صحن کا کچھ حصہ کچا باقی پکا تھا۔ پانی کے چھڑکاؤ سے مٹی کی منفرد سی خوشبو ہر طرف پھیل گئی۔
صدر دروازے کے پاس بائیں طرف بڑا سا چبوترہ بنا تھا۔ اس چبوترے پر کھڑے ہو کر باہر کا نظارہ آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔ زارا اور ارسل بھی اسی چبوترے پر کھڑے باہر ہونے والے ہلچل دیکھ رہے تھے۔
وہاں کچھ نوجوان ہاتھوں میں پانی کی بالٹیاں لیے ایک دوسرے پر پانی پھینک رہے تھے۔ بائیں طرف دیوار کے پاس کھڑے دو چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں بھی ویسی ہی بالٹیاں تھیں۔ اچانک دیوار پر ایک اور بچے کا سر نمودار ہوا۔ زارا نے ارسل کی توجہ ان بچوں کی طرف مبذول کروائی۔ دیوار پر نمودار ہونے والے بچے نے دونوں بچوں پر پانی کی بالٹی انڈیل دی۔ اچانک اتنے سارے پانی کی وجہ سے دونوں بچے ڈر گئے۔ وہ کچھ بول بھی رہے تھے۔ دور سے آواز تو سنائی نہیں دے رہی تھی، مگر ان بچوں کی ہنسی سے معلوم ہو رہا تھا، انھیں اس کھیل میں بہت مزہ آ رہا ہے۔
”یہ لوگ ایک دوسرے پر پانی کیوں پھینک رہے ہیں؟“ ارسل نے سوال کیا۔
”ہمیں نہیں معلوم۔“ زارا نے گردن موڑ کر ارسل کو دیکھتے ہوئے جواب دیا اور دل چسپی سے باہر دیکھنے لگی۔
”ہی ہی ہی۔۔۔۔ آخر کار ایسا کچھ مل ہی گیا جس کے بارے میں آپ کو معلوم نہیں ہے۔“ ارسل نے بڑے خوش گوار لہجے میں دانتوں کی بھرپور نمائش کرتے ہوئے کہا۔ اس کی بات سنتے ہی زارا نے آنکھیں دکھائیں اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے چبوترے سے نیچے اتر گئی۔ گھر والے کرسیوں اور چارپائیوں پر براجمان تھے۔ زارا خاموشی سے بابا جانی کے پاس بیٹھ گئی۔ ارسل بھی دائیں طرف بنی کیاریوں کے پاس رکھی چارپائی پر آ بیٹھا جہاں زارا اور بابا جانی بیٹھے تھے۔
”بابا جانی! باہر لوگ ایک دوسرے پر پانی کیوں پھینک رہے تھے؟“ ارسل نے پہلے والا سوال ہی بابا جانی سے بھی پوچھا۔
”یہ تو گاؤں کی روایت ہے۔“ بابا جانی کی بجائے دادی امی نے کہا۔
”یہ کیسی روایت ہے دادی امی! اس میں تو بہت سارا پانی ضائع ہوتا ہے۔“ زارا نے حیرت بھرے انداز میں کہا۔
”اصل میں جب گرمی بہت بڑھ جاتی ہیں اور بارش نہیں ہوتی، تب ایسا کیا جاتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ بارش عطا فرمائیں۔“ بابا جانی نے اصل بات بتائی۔
”ایک دوسرے پر پانی پھینکنے کا بارش ہونے سے کیا تعلق؟“ عاشی آپی نے حیرت سے پوچھا۔ سبھی چھوٹے بڑے گفتگو کو دل چسپی سے سن رہے تھے۔ چارپائیاں اور کرسیاں اس طرح لگائی گئی تھیں کہ درمیان میں جگہ خالی تھی، جب کہ چاروں طرف سب موجود تھے۔ اس خالی جگہ پر خوب صورت لکڑی کی میز رکھی گئی تھی۔
”میں سمجھاتا ہوں۔“ بابا جانی نے کہا اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ زارا نے پاس رکھا تکیہ انھیں دیا جسے انھوں نے اپنی گود میں رکھ لیا۔
”پنجاب کے دیہی علاقوں میں یہ چیز عرصہ دراز سے چلی آ رہی ہے۔ اسے سب سے پہلے کس نے اختیار کیا؟ یہ تو نہیں معلوم مگر ہمارے باپ دادا بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ جب کبھی گرمی کی شدت بڑھتی ہے اور بارش نہیں ہوتی، مرد حضرات مل کر باہر کھلی جگہ پر نماز استسقاء ادا کرتے ہیں۔ پھر بارش کی دعا کی جاتی ہے، اس کے بعد ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے ڈالے جاتے ہیں۔ اس طرح نماز اور دعا کی برکت سے اللہ بارش برساتے ہیں۔“ بابا جانی نے تفصیلی جواب دیا۔
”نماز استسقاء؟ یہ کون سی نماز ہوتی ہے؟“ ارسل نے جھٹ سے حیرت بھرے انداز میں سوال کیا۔ اس کی تیزی دیکھ کر زارا مسکرانے لگی۔
”نماز استسقاء سنت ہے۔ اس کا مطلب ہے ایسی نماز جو بارش نہ ہونے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔ ویسے تو یہ جماعت کی صورت مسجد یا عوامی جگہ جیسے عید گاہ میں دو رکعت نمازِ استسقاء ادا کی جاتی ہے لیکن اگر جماعت ممکن نہ ہو تو اکیلا شخص بھی پڑھ سکتا ہے۔ نماز کے بعد بارش کے لیے خصوصی دعا کی جاتی ہے۔“ بابا جانی نے سمجھایا۔
”بارش کے لیے نماز اور دعا کی بات تو سمجھ میں آ گئی۔ مگر ایک دوسرے پر پانی والی بات سمجھ نہیں آئی۔“ عاشی آپی نے پر سوچ انداز میں کہا۔
”آپ اسے حیلہ کہہ سکتی ہیں۔“ بابا جانی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یہ حیلہ کیا چیز ہے بابا جانی؟“ زارا نے حیرت امیز انداز میں پوچھا ۔
”حیلہ یا شگون ایسا طریقہ کار ہوتا ہے جس کے ذریعے کوئی بات یا کام اپنے لیے درست مانا یا سمجھا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف روایات میں شامل ہے بلکہ احادیث مبارکہ سے بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ جیسے کہ عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید گاہ کی طرف بارش طلب کرنے کی غرض سے نکلے، جب آپ ﷺ نے دعا کرنے کا ارادہ کیا تو قبلہ رخ ہوئے پھر اپنی چادر پلٹی۔
چادر اُلٹنا ایک نیک حیلہ تھا کہ جیسے یہ چادر پلٹی گئی؛ اللہ ایسے ہی حالات کو پلٹا دے اور خشک دنوں میں بارش عطا فرمائے۔ یہ نیک حیلہ حدیث سے ثابت ہے۔“ بابا جانی نے جب نبی کریم ﷺ کا نام لیا تو سب نے درود شریف پڑھا۔
”ایک اور مثال دیکھیں کہ خوات بن جبیر کہتے ہیں سیدنا حضرت عمر ابن خطاب ؓ کے دور میں لوگوں کو سخت قحط پیش آیا۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب ؓ لوگوں کے ساتھ نماز گاہ میں تشریف لائے اور لوگوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی، پھر آپ ؓ نے چادر گھمائی اور یوں کہ دایاں کونا گھما کر اپنے بائیں مونڈھے پر لائے اور چادر کا بایاں کونا گھما کر اپنے دائیں مونڈھے پر لائے پھر ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی: یا اللہ ہم تجھ سے بخشش طلب کرتے ہیں اور تجھ سے بارش طلب کرتے ہیں چناں چہ لوگ ابھی نماز گاہ سے نہیں ہٹے تھے کہ بارش برسنے لگی۔“ محمد علی صاحب نے دورِ صحابہ سے مثال پیش کرتے ہوئے بات مکمل کی۔
”لیکن بابا جانی! باہر تو لوگ پانی ضائع کر رہے تھے۔ آپ کہتے ہیں پانی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ پھر یہ حیلہ یا شگون اچھا کیسے ہوا؟“ ارسل نے پر سوچ انداز میں کہا۔
”بہت اچھا سوال ہے۔ کوئی بھی چیز تب تک اچھی ہے جب وہ اللہ کے بتائے طریقوں کے مطابق ہو، اس سے کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچے۔ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ جب کہ چند چھینٹوں کی بجائے پانی ضائع کرنا، بری بات ہے۔ یہ اچھا شگون بننے کی بجائے غلط حرکت ہی کہلائے گا۔“ بابا جانی نے ارسل کو شاباشی دیتے ہوئے تفصیل سے سمجھایا۔
”کیا جب بھی پانی پھینکا جائے گا تب بارش ہو گی؟“ زارا اب تک بارش ہونے والی بات پر اٹکی تھی۔
”بارش دینا یا نہ دینا تو اللہ کے حکم پر منحصر ہے۔ اللہ کا حکم ہو گا تو بارش ہو گی، اللہ کا حکم نہیں ہو گا تو کسی حیلے یا اچھے شگون سے بارش نہیں ہو گی۔ بلکہ حیلے یا اچھے شگون کو یہ سمجھ کر کرنا کہ اس سے ضرور یہ کام ہو گا، یہ درست نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا نا حدیث مبارکہ میں بھی پہلے نماز اور دعا سے مدد لی گئی۔ پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بھی پہلے نماز اور دعا کی۔ اس کے بعد حیلہ اختیار کیا۔“ بابا جانی نے کہتے ہوئے سب پر نظر ڈالی۔ سب ان کی طرف ہی متوجہ تھے۔
”زارا باجی! آئیں ہم بھی نماز پڑھ کر بارش کی دعا مانگیں۔“ ارسل نے ہاتھ پنکھے سے خود کو ہوا دیتے ہوئے کہا۔
”لیکن پہلے آم کا جوس تو پی لیں۔“ امی جان نے جوس کا گلاس ارسل کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ تائی امی اور چاچی سب کو جوس دینے لگیں۔
”میں پھر آم بھی کھاؤں گا۔“ ارسل نے جوس کے گلاس کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کے انداز پر بڑے چھوٹے سبھی مسکرانے لگے۔