زید اور ڈاکو

اعظم طارق کوہستانی

سات سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے کہانی

زید کی خواہش پوری ہو ہی گئی۔ اس نے سوچا نہیں تھا کہ اس کا یہ خواب کبھی پورا ہوگا لیکن زید کے چچا کو جب زید کی اس خواہش کے بارے میں پتا چلا تو انھوں نے ایک پروگرام ترتیب دیا۔ اب آپ بے چین ہورہے ہیں کہ آخر زید کی کیا خواہش تھی۔ تو کیا ہم بتادیں؟ چلیں کان اِدھر لائیں۔ آپ کسی کو مت بتائیے گا۔ دراصل زید کو اونٹ پر سفر کرنے کا بڑا شوق تھا لیکن اس کے ساتھ یہ شوق بھی تھا کہ یہ سفر وہ صحرا میں کرے اور صحرا بھی کون سا بھلا؟ …عرب کا صحرا۔
زید کے والدین کے لیے یہ خواہش پوری کرنا مشکل تھی۔ زید نے کبھی ضد بھی نہیں کی لیکن اس کی قسمت میں صحرا کا سفر تھا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ مصر روانہ ہوگیا۔ اگرچہ مصر براعظم افریقا میں موجود ہے۔ وہاں عرب کا صحرا نہیں لیکن وہ عرب کے صحرا سے کم بھی نہیں تھا۔
آج سب لوگ ایک قافلے کے ہمراہ اونٹوں پر سفر کرکے مصر کا سب سے بڑا صحرا عبور کرنے والے تھے۔ راستہ لمبا تھا۔ سفر بھی مشکل تھا۔ تمام انتظامات کیے جاچکے تھے حتیٰ کہ مچھروں سے بچنے کے لیے ڈھیر سارا لوشن بھی لیا جاچکا تھا۔ قافلہ سفر کرتے کرتے کافی دور نکل آیا تھا۔ زید نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ دور تک ریت ہی ریت تھی۔ انہوں نے اچھا خاصا پانی اور کھانے پینے کا سامان ساتھ لے لیا تھا۔ اس لیے انھیں پانی وغیرہ کی فکر نہیں تھی۔
اونٹ پر سفر کرتے کرتے زید آگے پیچھے خوب زور زور سے ہل رہا تھا۔ اسے بہت مزہ آرہا تھا لیکن زید اور قافلے والوں کو معلوم نہ تھا کہ ان کا کوئی پیچھا کررہا ہے۔ دس سے بارہ لوگ تھے جو کافی دیر سے ان لوگوں کا پیچھا کررہے تھے۔ عصر کا وقت تھا۔ پورا قافلہ نماز پڑھنے کے لیے رک گیا۔ زید نے بھی وضو کیا اور نماز پڑھی جیسے ہی نماز ختم ہوئی قافلے پر ڈاکوئوں نے حملہ کردیا۔
یہ وہی لوگ تھے جوان کاپیچھا کررہے تھے۔ سفر کے دوران زید اونٹ پر اپنے ابو کے ساتھ بیٹھا تھا لیکن نماز کے بعد ابھی زید اونٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ یہ واقعہ رونما ہوگیا۔
ایک افراتفری مچ گئی۔ ہر کوئی بھاگ رہا تھا۔ زید کا اونٹ بھی ایک طرف بھاگ گیا۔
’’ارے ارے رکو! ‘‘
زید نے اونٹ کو روکنے کی کوشش کی لیکن اونٹ تو ایسے بھاگ رہا تھا جیسے وہ کسی مقابلے میں آیا ہے۔
تھوڑی دیر بعد اونٹ رک گیا۔ یہاں کھجور کے درخت اور پانی کا ایک چھوٹا سا چشمہ تھا۔ زید کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ اسے پیاس لگ رہی تھی۔ وہ اونٹ سے اترا، پانی پیا۔
اچانک اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس جانب آرہا ہے۔ زید اونٹ کو تو نہیں چھپا سکا لیکن خود ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ یہ وہی ڈاکو تھے جنھوں نے قافلے پر حملہ کیا تھا۔ قافلے کا بہت سارا سامان اُن کے پاس تھا۔ اس سے پہلے وہ قریب آتے۔ زید کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ زید نے اونٹ کی طرف دیکھا۔ اونٹ پر مچھروں والی دوا موجود تھی۔ زید نے دوا نکالی اور ساری دوا پانی کے چشمے میں ڈال دی۔ اسے معلوم تھا کہ ڈاکو یہاں سے پانی پئیں گے اور یہی ان کا ٹھکانا ہے۔
واقعی ڈاکوئوں نے آتے ہی پانی پیا اور لیٹ گئے۔ تھوڑی دیربعد ہی وہ سب چیخنے لگے۔ مچھروں والی دوا خطرناک تھی۔ سب ڈاکو بے ہوش ہو کر گرنے لگے۔ اتنی دیر میں زید کے امی ابو کچھ لوگوں کے ساتھ زید کو ڈھونڈتے ہوئے آگئے۔ انھوں نے جب ڈاکوئوں کو بے ہوش دیکھا تو بہت حیران ہوئے۔
زید نے انھیں تفصیل سے ساری بات بتائی۔
قافلے والے اپنا سامان ملنے پر بہت خوش ہوئے، تمام ڈاکوئوں کو باندھ کر صحرا سے باہر لے جایا گیا، جہاں پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا۔ زید بہت خوش تھا۔ اس کا شوق بھی پورا ہوگیا اور اس نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جو اسے ہمیشہ یاد رہے گا۔
بچو! مچھروں کی دوا خطرناک ہوتی ہے۔ اس لیے اسے منھ میں ڈالنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے ورنہ آپ کا حشر بھی ڈاکوئوں جیسا ہوسکتا ہے۔

٭…٭